اپوزیشن جماعتیں سیخ پا ‘بیک وقت الیکشن کی تجویز کو مسترد کریا ‘ ملک کو’ایک ملک ایک ایجوکیشن کی ضرورت ہے ‘
نئی دہلی//
مرکزی کابینہ نے جمعرات کو دو بلوں کو منظوری دے دی، جن میں سے ایک ’ایک ملک، ایک الیکشن‘کو نافذ کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا بھی شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ فی الحال کابینہ نے صرف لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کیلئے قانون سازی کے مسودے کو اپنی منظوری دے دی ہے۔
سابق صدر رام ناتھ کووند کی قیادت والی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے قومی اور ریاستی انتخابات کے ساتھ بلدیاتی اور پنچایت انتخابات مرحلہ وار منعقد کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی لیکن کابینہ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے طریقہ کار سے فی الحال دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لئے آئینی ترمیمی بل کو کم از کم ۵۰ فیصد ریاستوں کی توثیق کی ضرورت نہیں ہوگی۔
کووند پینل کے ذریعہ تجویز کردہ ایک اور آئینی بل کا مقصد ایک نیا آرٹیکل ۳۲۴؍ اے شامل کرکے لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ ساتھ میونسپلٹیوں اور پنچایتوں کے انتخابات منعقد کرنے کی دفعات تیار کرنا تھا۔
اس کے لئے آدھی ریاستی اسمبلیوں کی توثیق کی ضرورت ہوتی۔لیکن مرکزی کابینہ نے ابھی تک بلدیاتی انتخابات کو باہر رکھا ہے۔
یہ فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کے اجلاس میں لیا گیا۔
دوسرا بل ایک عام بل ہوگا جس میں مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے متعلق تین قوانین کی دفعات میں ترمیم کی جائے گی جن میں پڈوچیری، دہلی اور جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلیاں ہیں تاکہ ان ایوانوں کی شرائط کو دیگر قانون ساز اسمبلیوں اور لوک سبھا کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکے جیسا کہ آئین ترمیمی بل میں تجویز کیا گیا ہے۔
اس میں جن قوانین میں ترمیم کی تجویز ہے ان میں گورنمنٹ آف نیشنل کیپٹل ٹیریٹری آف دہلی ایکٹ۱۹۹۱‘ گورنمنٹ آف یونین ٹیریٹریز ایکٹ۱۹۶۳؍ اور جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ ۲۰۱۹ شامل ہیں۔
مجوزہ بل ایک عام قانون ہوگا جس میں آئین میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہوگی اور ریاستوں کی توثیق کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
حکومت ان بلوں پر وسیع تر مشاورت کرنے کی خواہاں ہے جنہیں ممکنہ طور پر پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت کمیٹی کے ذریعہ مختلف ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے اسپیکروں سے بھی مشورہ کرنا چاہتی ہے۔
حکومت نے اپنے ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کے منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے ستمبر میں لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات مرحلہ وار طریقے سے کرانے کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشات کو قبول کر لیا تھا۔
عام انتخابات کے اعلان سے ٹھیک پہلے مارچ میں حکومت کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں پینل نے دو مرحلوں میں ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ نافذ کرنے کی سفارش کی تھی۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی حلیف جماعتیں ایک ساتھ انتخابات کرانے پر زور دے رہی ہیں جبکہ کئی اپوزیشن جماعتوں نے اس خیال کی مخالفت کی ہے۔
حکومت کا خیال ہے کہ بیک وقت انتخابات سے طویل مدت میں اخراجات میں کمی آئے گی اور مختلف انتخابات کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں سال بھر ضابطہ اخلاق کے تحت نہیں رہیں گے۔
۱۹۵۱؍ اور ۱۹۶۷ کے درمیان ملک میں بیک وقت انتخابات ہوئے۔ ایک ساتھ انتخابات کا تصور ۱۹۸۳ کے بعد سے بہت سی رپورٹوں اور مطالعات میں نمایاں کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ بیک وقت انتخابات منعقد کرنے کے سابقہ طریقہ کار کی واپسی ہوئی ہے۔
انتخابی چکر کو حکمرانی میں کم سے کم خلل کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے علاوہ (اور اس بات کو یقینی بنانے کے علاوہ کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس میں شامل ہوں)، ایوانوں کی تحلیل، صدر راج، یا یہاں تک کہ مخلوط اسمبلی یا پارلیمنٹ کی وجہ سے وقفوں سے نمٹنے کے بارے میں ابھی تک کوئی حقیقی وضاحت نہیں ہے۔
علاقائی پارٹیوں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ ان کے محدود وسائل کا مطلب ہے کہ وہ لوک سبھا انتخابات کے لئے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی بہتر مالی اعانت والی پارٹیوں کے سامنے ووٹروں کے سامنے مقامی مسائل کو اتنی مؤثر طریقے سے اجاگر کرنے کے قابل نہیں ہوسکتی ہیں۔
تشویش کا ایک اور شعبہ ای وی ایم یا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری کی بار بار آنے والی لاگت ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ یہ ہر۱۵ سال میں تقریباًدس ہزار کروڑ روپے ہوگا۔
نیوز ایجنسی پی ٹی آئی نے جنوری میں بتایا تھا کہ ’ون نیشن، ون الیکشن‘پینل کو عوام کی جانب سے تقریبا ً۲۱ہزار تجاویز موصول ہوئیں، جن میں سے ۸۱فیصد سے زیادہ کے حق میں تھیں۔
ادھر مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے جمعرات کو مرکزی کابینہ کی جانب سے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لئے آئین میں ترمیم کرنے اور بی جے پی کے ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کے خواب کو پورا کرنے کے ایک قدم قریب لانے کے لئے دو بلوں کو منظوری دینے کی مخالفت کی ہے۔
ترنمول کانگریس کی رہنما جو اس تجویز کی سخت ناقد ہیں اور انہوں نے پہلے اسے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مسخ کرنے کا منصوبہ قرار دیا تھا، آج شام کو’وفاق مخالف‘ عمل کی مذمت کی اور اسے’ہندوستان کی جمہوریت اور وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے لیے تیار کیا گیا آمرانہ نفاذ‘ قرار دیا۔
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ نے کہا’’ہمارے ارکان پارلیمنٹ اس ظالمانہ قانون سازی کی بھرپور مخالفت کریں گے۔ بنگال کبھی بھی دہلی کی آمرانہ سوچ کے آگے نہیں جھکے گا۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت کو آمریت کے چنگل سے بچانے کے بارے میں ہے‘‘۔
ممتا بنرجی کا آج کا شدید حملہ ایک ساتھ انتخابات کرانے کی ان کی دیرینہ مخالفت کی عکاسی کرتا ہے۔ جنوری میں انہوں نے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی قیادت میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت میں مرکز کی طرف سے مقرر کردہ پینل کو خط لکھ کر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
ممتا بنرجی نے تمل ناڈو کے اپنے ہم منصب ایم کے اسٹالن کی جانب سے ’ایک ملک، ایک الیکشن‘کی تجویز کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر جمہوری‘ قرار دیا۔
اسٹالن نے کہا’’آئیے ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ ہندوستانی جمہوریت پر اس حملے کا مقابلہ کریں‘‘۔
فی الحال بنگال اور تمل ناڈو میں۲۰۲۶ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال نے بھی ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لئے ملک کے صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے پر سیاسی اتفاق رائے اور توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
کیجریوال نے کہا’’ اس ملک کو ’ایک قوم، ایک تعلیم‘،’ایک قوم، ایک صحت کی دیکھ بھال کے نظام‘ کی ضرورت ہے۔ دہلی کے سابق وزیراعلیٰ نے بی جے پی کی غلط ترجیحات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ نہیں۔
دہلی میں آئندہ اسمبلی انتخابات میں چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور یہ فروری میں متوقع ہے۔
کانگریس کے لئے آسام کے ایم پی گورو گوگوئی نے ملک کے وفاقی ڈھانچے پر ممکنہ منفی اثرات کی نشاندہی کی اور کہا کہ مہاراشٹر اور ہریانہ کے انتخابات ایک ساتھ منعقد کرکے پچھلے مہینے ایڈہاک ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے مواقع کو نظر انداز کردیا گیا۔
گوگوئی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود اس پر عمل نہیں کیا ہے ۔ان کاکہنا تھا ’’وزیر اعظم ’ایک ملک، ایک الیکشن‘کی بات کرتے ہیں، لیکن جب یہ ان کے لیے مناسب ہوتا ہے، تو وہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے انتخابات الگ الگ کرواتے ہیں۔ وہ ایک مرحلے میں ایک ریاست میں انتخابات بھی نہیں کرواتے ہیں۔ وہ پانچ میں ایسا کرتا ہے جب یہ اس کے لئے مناسب ہوتا ہے‘‘۔
مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کے شیوسینا دھڑے اور سی پی آئی ایم کے جان برٹاس بھی ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کی تجویز کے خلاف حزب اختلاف کی بڑھتی ہوئی آوازوں میں شامل ہوگئے۔