سرینگر //(ویب ڈیسک)
الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کی ایک حالیہ تقریر بھارت میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور سیاسی و قانونی حلقوں اور سوشل میڈیا پر اس تقریر پر ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اس تقریر پر چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور صدر دروپدی مورمو کے نام خطوط لکھے گئے ہیں جن میں مذکورہ جج کی تقریر کو قابلِ اعتراض کہتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی اپیل کی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ معاملہ سپریم کورٹ کے زیرِ غور آیا ہے۔ چیف جسٹس نے شکایات موصول ہونے کے بعد اس معاملے کا نوٹس لے لیا ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ سے تمام تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
جسٹس شیکھر کمار یادو نے اتوار کو الہ آباد ہائی کورٹ کے لائبریری ہال میں سخت گیر مذہبی تنظیم ’وشو ہندو پریشد‘ (وی ایچ پی) کی ایک تقریب میں اظہارِ خیال کیا تھا۔
یکساں سول کوڈ سے متعلق منعقدہ اس تقریب میں جسٹس یادو نے موضوع کے علاوہ ذبیحہ، تین طلاق، حلالہ، کثرت ازواج اور رام مندر وغیرہ کے موضوع پر بھی اظہار خیال کیا تھا۔
جسٹس یادو نے یکساں سول کوڈ کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ملک ایک ہے‘آئین ایک ہے، عوام ایک ہیں تو پھر قانون ایک کیوں نہیں ہونا چاہیے۔
ان کے بقول’’مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ یہ ہندوستان ہے اور ملک اکثریت کی خواہش کے مطابق چلے گا۔ جو چیز اکثریت کی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے لیے مفید ہو وہی قابل قبول ہے‘‘۔
جسٹس یادو نے کہا تھا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں چار بیویاں رکھنے، حلالہ کرنے، تین طلاق دینے اور اپنی بیویوں کو نان نفقہ سے محروم رکھنے کا حق ہے۔انہوں نے مسلم مذہبی شخصیات کے بارے میں کہا تھا کہ مسلمانوں میں سب برے نہیں ہیں۔ یہ کٹھ ملا ہیں جو خطرناک ہیں۔ وہ لوگوں کو بھڑکاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ملک ترقی کرے۔
وکلا کی ایک تنظیم ’آل انڈیا لائرز یونین‘نے صدر اور چیف جسٹس کے نام خط میں جسٹس شیکھر کمار یادو کی تقریر کو مسلمانوں کے خلاف’ہیٹ اسپیچ‘ یعنی ’نفرت انگیز تقریر‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
خط میں ان کی تقریر کو آئین، اس کے جذبے اور اس کے بنیادی ڈھانچے یعنی سیکولرزم اور عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دیا گیا۔ خط کے مطابق شیکھر کمار یادو جج کے منصب پر فائز رہنے کے اہل نہیں رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی ایجنڈے کے تحت منعقد ہونے والے وی ایچ پی کے پروگرام میں جج کی شرکت شرم ناک ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل رویندر کمار ایڈووکیٹ نے اس تقریر پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے طلاق ثلاثہ، حلالہ اور ایک سے زائد شادیوں سے متعلق ان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات ججز اپنی حدیں فراموش کر دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ جج کی کرسی پر بیٹھ کر کچھ بھی بول سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ملک آئین کے مطابق چلے گا۔ اکثریتی خواہش کے مطابق نہیں۔
ان کے مطابق سپریم کورٹ نے بار بار اپنے فیصلوں میں کہا ہے آئین کے بنیادی ڈھانچے یعنی سیکولرزم کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کو اکثریت بھی نہیں بدل سکتی۔
ادھر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کی پولٹ بیورو کی رکن اور سابق رکن پارلیمنٹ برندا کرات نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام خط میں جسٹس یادو کے ریمارکس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جسٹس یادو نے اپنے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کی اور آئینی اصولوں کو نقصان پہنچایا۔ یہ تقریر جمہوری اور سیکولر اصولوں کے منافی تو ہے ہی، عدلیہ کی ایمان داری پر حملہ بھی ہے۔
ان کے مطابق اگر کوئی جج ایسے جانب دارانہ نظریات رکھے گا اور عوامی طور پر ایک فرقے کے خلاف اظہار خیال کرتے ہوئے اکثریت پرستی کی بات کرے گا تو پھر کوئی شخص ایسے جج سے انصاف کی امید کیسے کرے گا؟
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمن (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ جج کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ آئین ان سے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانب داری کی توقع کرتا ہے۔انہوں نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا ہے۔
جسٹس شیکھر کمار یادو پہلے بھی ایسے فیصلے اور تقریر کر چکے ہیں جس پر تنازع ہوا تھا۔ انہوں نے۲۰۲۱ میں گاؤ کشی کے ایک مسلم ملزم کو یہ کہتے ہوئے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ گائے کو قومی جانور اور اس کی حفاظت کو بنیادی حقوق میں شامل کیا جانا چاہیے۔انہوں نے اْسی سال ایک دوسرے فیصلے میں کہا تھا کہ رام، کرشن، رامائن، گیتا اور ان کے مصنفین والمیکی اور وید ویاس کو پارلیمنٹ سے قانون منظور کراکے قومی اعزاز سے نوازا جانا چاہیے۔