ہم … ہم کشمیری بھی ایک عجیب قوم ہے…سچ پوچھئے تو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم قوم ہے بھی یا نہیں کہ… کہ ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں… ہمیں صرف خود سے مطلب ہے‘ کسی دوسرے سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… وہ بھاڑ میں جائے ‘اور بڑے شوق سے جائے۔اگر ہم میں اجتماعیت ہوتی‘ اگر ہم میں یکسوئی ہو تی ‘ اگر ہم ایک قوم ہو تی تو… تو ہم پوچھتے … ہم یہ سوال ضرور کرتے کہ… کہ گزشتہ ۳۵ برسوں میں جو کم و بیش ۵۰ ہزار لوگ مارے گئے ‘ ان ۵۰ ہزار لوگوں کا خون ہم کس کے ہاتھوں… یا کس کس کے ہاتھوں پر تلاش کریں … ان ۳۵ برسوں کے دوران کشمیر میں جو تباہی اور بربادی ہو ئی اس کا حساب ہم کس سے لیں… اس کیلئے ہم کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں کہ … کہ کوئی تو ہو گا جو اس کا ذمہ دار ہو گا … آج بڑی آسانی سے کہا جارہا ہے کہ اجی ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم کیا کررہے تھے اور ہمیں کیا کرنا تھا… ہم تاریکیوں میں چل رہے تھے ‘ اس لئے ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا… ہم نے ایسے خواب دیکھے جس کی تعبیر ہمیں معلوم نہیں تھی ہم ایک بڑی قوت کیخلاف نبرد آزما ہو گئے… ہم میں عزم تھا ‘ لیکن نظم نہیں تھا…ہم بڑے مکانوں اور اچھے پوشاکوں کے پیچھے لگ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کیا یہ کہنا… کیا اس کا اعتراف کرنا کافی ہے؟اگر عزم تھا لیکن نظم نہیں تھا تو… تو اس کا ذمہ دار کون ہے اور… اور نظم نہ ہونے کی کشمیریوں نے جو بھاری قیمت چکائی … وہ محض یہ کہنے سے ادا تو نہیں ہو سکتی ہے… بالکل بھی نہیں ہو سکتی ہے کہ … کہ ہم میں عزم تھا ‘ لیکن نظم نہیں تھا… نہیں صاحب قیمت بڑی ہے… اس قوم نے ۳۵ برسوں میںبہت کچھ کھویا… اتنا کھویا کہ اس کی تلافی ان کھوکھلے جملوں سے نہیں ہو سکتی ہے… یہ جملہ بازی ہے اور کچھ نہیں … اور کشمیریوں کو اس جملہ بازی میں کوئی دلچسپی نہیں ہو نی چاہیے… کہ جن جملوں کا سہارا لے کر آج اعتراف گناہ ‘ اعتراف شکست کیا جارہاہے… انہی جملوں کا سہارا لے کر کل تک کشمیریوں کو بڑے بڑے خواب دکھائے جا رہے تھے … اگر… جی ہاں اگر… اگر ہم کشمیری ایک قوم ہے تو… تو اگر کچھ نہیں تو… تو کم از کم ہمیں یہ سوال کرنا چاہیے کہ ۳۵ برسوں… گزشتہ ۳۵ برسوں میں جو کچھ ہوا … جو تباہی ‘ جو بربادی … جو خون بہا وہ خون ہم کہاں اور کس کے ہاتھ/ہاتھوں پر تلاش کریں ۔ ہے نا؟