جموںاور کشمیر کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ حملوں میں نہ اضافہ ہوا ہے اور نہ کمی، بلکہ یہ حملے گھٹتے بڑھتے تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔ ان حملوں کی عمر اب بلکہ فی الوقت تک ۳۵؍ سال کی ہوگئی ہے۔ دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کی موجودگی کے باوجود یہ دہشت گردانہ واقعات اپنے تسلسل اور رفتار کے ساتھ پیش آتے رہے اور دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵؍ اے کے خاتمہ کے بعد بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں اور جموں وکشمیر کے چپے چپے کو لہو رنگ کرتی جارہی ہے۔
دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے ان برسو ںکے دوران کتنی ہی حکمت عملیاں اختیار کی جاتی رہی، کتنے ہی روڈ میپ وضع کرکے انہیںعملی جامہ پہنایا جاتارہا، سیاسی اور انتظامی سطح پر لاتعداد اقدامات پورے تسلسل کے ساتھ اُٹھائے جاتے رہے ، ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کئے جاتے رہے کہ واقعات میںکمی ہورہی ہے، دراندازی کی کوششوں کو تقریباً صفر پر لایاگیا ہے، ایکوسسٹم کے خلاف بھی مناسب کارروائی عمل میںلائی جارہی ہے جبکہ ساتھ ہی دہشت گردی سے منسوب منی لانڈرنگ میںملوثین کے خلاف بھی بھر پور مگر حکمت عملی کے ساتھ اقدامات کئے جارہے ہیں۔ یہ بھی یقین دلایاجاتا رہا کہ کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر سکیورٹی سسٹم کو انتہائی مضبوط بنایاگیا ہے اور سرحد کے کئی کلومیٹر اندرتک کم سے کم تین Layerپر مشتمل مضبوط دفاعی اور نگرانی سسٹم کو وجود بخشا گیا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود دہشت گردانہ واقعات پیش آرہے ہیں۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ الیکشن سے قبل کے چند مہینوں کے دوران جموں خطے میںدہشت گردانہ معاملات پیش آتے رہے جن میںمتعدد فوجی آفیسر اور جوان جاں بحق ہوتے رہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے چند واقعات بھی رونما ہوئے۔ دس سال کے بعد تشکیل پائی نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی وادی کے کئی علاقوں کو دہشت گردی کی زد میں لایاگیا، کئی ایک غیر مقامی مزدوروں کو نشانہ بنایاگیا ، حملوں میںفورسز کے بھی کئی اہلکار اوار مقامی شہری بشمول ایک ڈاکٹر کی جان گئی اور اب چند گھنٹے قبل سنڈے مارکیٹ کو نشانہ بنایاگیا۔
یہ سارے واقعات جموںوکشمیر کے ہر شہری کیلئے روح فرسا بھی ہیں اور فکر مندی کا باعث بھی ہیں۔ لیکن ان دہشت گردانہ واقعات کا توڑ کرنے کیلئے کسی مشترکہ انداز فکر ، اپروچ اور حکمت عملی کے تعلق سے خیالات کا اظہار کیاجاتا کچھ حلقے اس حد تک سیاسی تعصب کو جس انداز سے زبان دے رہے ہیں اُس پر حیرت ہی نہیں بلکہ ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ اپنے اس سیاسی تعصب کو زبان دیتے وقت وہ اس حد تک اپنا ذہنی توازن کھو رہے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ کہاجارہا ہے کہ کشمیر مخصوص حکومت کے برسراقتدار آتے ہی ان دہشت گردانہ واقعات میں اس لئے اضافہ ہوا کیونکہ وادی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں لہٰذا وہ حوصلہ پاکر اب حملہ آور ہورہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ، مقامی کانگریس یونٹ کے صدر طارق حمید قرہ دہلی نشین کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے دہشت گردانہ واقعات میںملوث دہشت گردوں کو زندہ پکڑنے کا یہ کہکر مطالبہ کیا کہ معلوم کیا جاسکے کہ ان کاتعلق کہاں سے ہے، کون انکی کمان کررہا ہے اور ایجنڈا کیا ہے لیکن ان مطالبات کو بھی مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کوئی اور ہی معنی پہناکر اپنے عینک کی تشریح کی جارہی ہے۔
مختلف میڈیا چینلوں پر بھی ان دہشت گردانہ واقعات کے تناظرمیں بحث ہورہی ہے اور مختلف مکتب فکر سے وابستہ شخصیات صورتحال سے نمٹنے کیلئے مشورے دے رہے ہیں۔اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ چونکہ اب الیکشن کے بعد عوام کی منتخبہ سرکار اقتدار میںآئی ہے لہٰذا وزیراعلیٰ کو مشاورت کا حصہ بنایا جانا چاہئے جبکہ فی الوقت کمانڈ اور کنٹرول لیفٹیننٹ گورنر کے ہاتھ میںہے۔ اس تعلق سے دو سابق پولیس سربراہوں کلدیپ کھڈا اور شش پال وید نے اپنے سابق تجربات کی روشنی میں صورتحال سے نمٹنے کیلئے کچھ تجاویز پیش کی ہیں البتہ ایک سابقہ سینئر پولیس آفیسر راجہ اعجاز علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ سنسنی خیز اعتراف کیا کہ ماضی قریب میں کچھ اندرونی عنصر اس نوعیت کے واقعات میںملوث رہے ہیں، انہوںنے دعویٰ کیا کہ ماضی میں کشمیر کی سیاحتی صنعت کو نقصان پہنچانے کیلئے ہماچل پردیش سے وابستہ کچھ عنصر نے سیاحوں پر حملے کرائے اور جب ایسے واقعات کی تحقیقات کی گئی تو یہ بات سامنے آگئی۔ راجہ اعجاز کا یہ اعتراف کوئی انکشاف نہیں بلکہ عوام کے مشاہدے میں ایسے واقعات کے تعلق سے ماضی میں آئی معلومات کی محض تصدیق ہے۔ لیکن یہ اعتراف سو فیصد نہیں بلکہ آدھا ہے۔
دہشت گردی چاہئے کسی بھی لبادے میں ہو کیلئے آبادی کا کوئی بھی طبقہ محفوظ ہے اور نہ ہی ملوثین کسی اعتبار سے ربط وضبط کے خود کو پابند سمجھتے ہیں۔ اس مخصوص تناظرمیں مختلف نوعیت کے نزاعی اور اختراعی دعویٰ کرنے سے فضا مکدر بھی ہوجاتی ہے اور آبادی کے مختلف طبقوں کے درمیان آپسی اتحاد،یگانگت اور فرقہ وارانہ یکجہتی رخنہ انداز ہوجاتی ہے۔ دہشت گردی چاہئے خارجی ہو یا داخلی عنصر پر مبنی ہو سالمیت اور وحدت کیلئے سم قاتل ہے، یہ بات سیاستدانوں کیلئے لازم ہے کہ وہ بات کرتے وقت اس زمینی حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا کریں اور عوام کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے آپسی اتحاد میں دراڑیں ڈالنے والوں کے مکروہ عزائم اوراپروچ کے مختلف طریقوں ، جو وہ بروئے کار لاتے رہتے ہیں، کو اچھی طرح سے سمجھنے کی زحمت گوارا کریں۔
دہشت گردچاہئے جموں کے کسی خطے میں سرگرم ہوں یا کشمیر کے کسی علاقے میں کو عوام کا کوئی منڈیٹ حاصل نہیں۔ وہ اپنے طور سے ایسی کسی سرگرمی میں ملوث ہیں یا کسی اور کے اشارے اور ہدایات پر ایسی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں ان سے نمٹنے کی تما م تر ذمہ داری قائم سکیورٹی گرڈ کی ہے، عوام کی زیادہ سے زیادہ اس حد تک ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی گرڈ کو اپنا تعاون پیش کریں تاکہ صورتحال سے نمٹنے میںسہولیت اور آسانی ہوسکے لیکن اگر آپ کسی اندھی سیاسی مصلحت، کسی سیاسی تعصب اور پسند ناپسند کو بُنیاد بناکر عوام پر بھروسہ نہ کریں، انہیں اعتماد میں نہ لیں بلکہ الٹے آبادی کے ہر شخص اور طبقے کو مشکوک کی نگاہوں سے دیکھنے کی روش پر چلتے رہینگے تو دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
بہرحال الیکشن سے قبل جو منظرنامہ سیاسی سطح پراُبھارا جارہا تھا اُس کو بادی النظرمیں ہی محسوس کرتے ہوئے اور ماضی کے تجربے اور مشاہدات کی روشنی میں باربار انہی کالموں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ کشمیر کی سیاست اور الیکٹورل پراسیس میں شرکت کے تعلق سے ۱۹۷۲ء کو دہرایا جائے ، لیکن تجربہ کیاگیا ، ایکوسسٹم سے وابستہ کچھ عنصر کو الیکشن میدان میں کھیلنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ، حوصلہ افزائی بھی کی جاتی رہی لیکن چونکہ لوگ اُس ایکوسسٹم کی گہرائی تک علمیت رکھتے ہیں انہوںنے یک زبان ہو کر اُس ایکوسسٹم سے وابستہ عنصر کو مسترد کردیا۔ یہ پہلو فی الوقت غور طلب ہونا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔