سرینگر//
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جماعت اسلامی جیسے گروپوں کو جموں و کشمیر میں انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لئے سخت قوانین کا مطالبہ کیا ہے۔
سنہا نے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے اور پارلیمنٹ میں بحث کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ایک متفقہ قانون تشکیل دیا جاسکے جو علیحدگی پسند نظریات کی حامل قوتوں کو انتخابی شرکت سے روک سکے۔
ایل جی نے این ڈی ٹی وی کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا’’مسئلہ صرف جماعت اسلامی کا نہیں ہے۔ انتخابات میں دیگر گروہ بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے پاکستان کے زیر اثر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس کی جماعت اسلامی جیسی قوتوں نے زمینی سطح پر حمایت کی تھی۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارا ملک آئینی اور قانونی اصولوں پر چلتا ہے، اور الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) ان طریقوں پر عمل کرتا ہے۔ ہم نے جموں و کشمیر سمیت ملک بھر میں ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں جہاں لوک سبھا انتخابات کے دوران منتخب نمائندوں نے بڑے پیمانے پر بحث کو جنم دیا ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں ایل جی سنہا نے کالعدم جماعت اسلامی جیسے عناصر سے نمٹنے اور اس بات کو یقینی بنانے کیلئے سخت قوانین کی ضرورت کا اعادہ کیا کہ ملک قانون اور آئین کے دائرے میں کام کرے۔
سنہا نے کہا کہ ان طاقتوں کو مستقبل کے مرکزی دھارے کے انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لئے الیکشن کمیشن کے ذریعہ ایک سخت قانون قائم کرنے کے لئے سیاسی اتفاق رائے اور پارلیمانی تبادلہ خیال ہونا چاہئے۔ اس طرح کے قانون کے بغیر، ہم مؤثر طریقے سے ان گروہوں کو حصہ لینے سے نہیں روک سکتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں آئندہ اسمبلی انتخابات میں آزاد امیدواروں کی قابل ذکر شرکت کے بارے میں ایل جی سنہا نے اسے’صحت مند جمہوریت کی علامت‘قرار دیا۔
ایل جی نے ماضی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں قبل از وقت انتخابات میں ایک سیاسی جماعت نے ۷۵ اسمبلی حلقوں میں۳۰؍ ایم ایل اے کو بلا مقابلہ منتخب کیا۔ انہوں نے مزید کہا’’دو طرح کے ایم ایل اے کے بارے میں ایک تاثر تھا، ایک کو عوام نے منتخب کیا اور دوسرا ضلع کلکٹروں کے ذریعے۔ آج مجھے آراء موصول ہو رہی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ماضی کے انتخابات منصفانہ طریقے سے ہوئے ہوتے تو صورتحال کافی بہتر ہوتی‘‘۔