سرینگر//
جموںکشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر ‘ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جمعرات کو کہا کہ۲۰۱۵میں بھاجپا کی مخلوط اتحاد والی سرکار کے قیام کیساتھ ہی اگرچہ جموں وکشمیر کے عوام کے مسائل و مشکلات اور سخت ترین چیلنجوں کی شروعات ہوگئی تھی تاہم ۵؍اگست۲۰۱۹کے بعد حالات مزید ابدتر ہوگئے اور گذشتہ ۵برسوں کے دوران یہاں کے عوام کا جینا ہر گزرتے دن کیساتھ دوبھر ہوتا جارہاہے ۔
ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ نئی دلی کی براہ راست حکمرانی میں اس تاریخی ریاست پر ایک ایسا افسر شاہی نظام مسلط کیا گیا ہے جہاں لال فیتہ شاہی عروج پر ہے اور عوام کی کہیں پر بھی شنوائی نہیں ہورہی ہے ۔
ان باتوں کا اظہار این سی صدر نے بھدرواہ سے تعلق رکھنے والے پارٹی عہدیدار وں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ جموں کشمیر میں ایک عوامی منتخبہ حکومت نہ ہونا انتہائی بدقسمتی کی بات ہے اور یہ غیر جمہوری نظام ملک کے جمہوری کردار پر سوالیہ نشان لگا دیتاہے ۔
این سی صدر نے کہا کہ جموں کشمیر کے عوام کو پہاڑ جیسے مشکلات کا سامنا ہے اور حکومتی سطح پر کہیں پر بھی راحت کاری نہیں ہورہی ہے ۔ حکمران صرف عوام کُش اور عوام مخالف فیصلوں اور اقدامات میں مصروف ہیں اور انتظامی سطح پر عوام کیخلاف اعلان جنگ کر کے دکھ دیا گیا ہے ۔
پارٹی نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہر ایک طبقے ، ہر ایک خطے اور ہر ایک مذہب سے تعلق رکھنے والوں کیساتھ یکساں سلوک اور مساوات کی بنیاد پر نمائندگی دینا نیشنل کانفرنس کا بنیادی اصول رہا ہے اور ہم نے عمل طور پر اس کا ثبوت پیش کیا ہے ۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ جہاں ہمارے ایم ایل اے نہیں ہوتے تھے وہاں سے ہم ایم ایل سی کا انتخاب کرکے وہاں کے عوام کو نمائندگی دیتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں بھی ہم اپنے اصولوں پر قائم و دائم رہیں گے اور ریاستی درجے کی بحالی کیساتھ ہی قانون ساز کونسل بھی واپس وجود میں آئے گا ، جس کے ذریعے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے طبقوں کو نمائندگی دینے کی کوشش کی جائیگی۔