سرینگر//
جموں کشمیر کی بارہمولہ لوک سبھا سیٹ پر ملی ٹینسی سے پہلے جیسا الیکشن جوش و خروش دیکھا گیا جب پانچ بجے تک ہی۵۵فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی جو سال۱۹۸۹سے سب سے زیادہ ہے ۔
اس سیٹ پر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ، پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون اور محبوس رکن قانون ساز انجینئر رشید کے درمیان کانٹے کی ٹکر متوقع ہے ۔
اطلاعات کے مطابق بارہ مولہ پارلیمانی نشست کے۱۸حلقوں میں پیر کی صبح ووٹنگ شروع ہوئی اور صبح سات بجے سے ہی لوگوں کو لمبی لمبی قطاروں میں دیکھا گیا جو اپنی رائے دہی کا استعمال کرنے کی خاطر کافی پرجوش نظر آرہے تھے ۔
بارہمولہ لوک سبھا نشست پر سال۱۹۹۶میں جب شور ش کا آغاز ہوا تھا توووٹنگ کی شرح۷ء۴۶فیصد درج کی گئی‘ سال۲۰۱۹کے لوک سبھا انتخابات میں ۹ء۳۸فیصد‘۲۰۱۴میں۱ء۳۹فیصد‘۲۰۰۹میں۸ء۴۱فیصد‘ سال۲۰۰۴میں۵ء۳۵فیصد‘۱۹۹۹میں۸ء۲۷فیصد اور۱۹۹۸میں۹۴ء۴۱فیصد پولنگ ریکارڈ ہوئی تھی۔
سال۱۹۸۴میں ملی ٹینسی کے ابتدائی ایام کے دوران بارہ مولہ پارلیمانی حلقے میں۱ء۶۱فیصد ووٹ پڑے تھے ۔
سوپور قصبے کے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر ایک ووٹر طارق احمد نے کہا’’میں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ووٹ دیا کہ ہماری شناخت محفوظ رہے(۲۰۱۹میں آرٹیکل۳۷۰کی منسوخی کا حوالہ دیتے ہوئے )۔ماضی میں میں نے کبھی ووٹ نہیں دیا۔ اور مجھے یقین ہے کہ بائیکاٹ نے ہمیں بے اختیار کر دیا ہے اور میں زمین اور نوکریوں کو محفوظ بنانے کے لیے ووٹ دے رہا ہوں‘‘۔
نامہ نگار نے بتایا کہ سوپور گورنمنٹ ڈگری کالج کے اندر واقع پانچ پولنگ اسٹیشنوں پر۳۰:۴بجے تک۴۲۲۲ووٹوں میں سے۱۳۲۸ووٹ پڑے تھے ۔
۴۸سالہ ارشاد احمد نے کہا’’پچھلے تین دہائیوں میں، میں نے کبھی کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا، لیکن آج میں اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کے لئے آیا ہوں‘‘۔
ہندواڑہ میں، پی سی امیدوار سجاد لون کے آبائی قصبے میں، موڈ حوصلہ افزا تھا۔ یہ قصبہ روایتی طور پر ماضی میں ایک متاثر کن ووٹر ٹرن آوٹ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔
ایک خاتون ووٹر خالدہ نے کہا’’ہم نے۲۰۰۲کے انتخابات میں ووٹ دیا تھا اور اس کے لیے ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی۔ لیکن اب تقریباً دو دہائیوں کے بعد ہر کوئی پورے کشمیر میں ووٹ ڈال رہا ہے ‘‘۔
انجینئر رشید کے آبائی قصبے لنگیٹ میں، لوگ رشید کو ایک آزاد آدمی کے طور پر دیکھنے کی امید کے ساتھ ووٹ دینے کے لیے قطار میں کھڑے تھے ۔
کپواڑہ کے تریہگام علاقے میں… جو اب کالعدم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی جائے پیدائش ہے ، جو ایک روایتی بائیکاٹ گاوں کے طورپر جانا جاتا تھا میں بھی اچھے خاصے ووٹ پڑے ۔
ایک ریٹائرڈ پرنسپل محمد اشرف میر نے کہا کہ ترہگام میں لوگوں کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے نکلی۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ اب ووٹ کی طاقت کو سمجھ چکے ہیں۔
ترہگام کے ایک سکول کے چار پولنگ سٹیشنوں میں سے۳۷۳۵ووٹوں میں سے۱۰۲۳ووٹ دوپہر کے قریب فال ہوئے تھے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ۲۱۰۳پولنگ اسٹیشنوں میں سے کئی پر بھی کوئی ناخوشگوار واقع رونمانہیں ہوا ۔