الیکشن کا بگل بجتے ہی جموں وکشمیر میں سیاسی اور انتخابی بخار چڑھنا شروع ہوگیا ، ہرگذرتے دن کے ساتھ اس کا پارہ بلندی کی طرف جارہا ہے، کہا نہیں جاسکتا کہ انتخابات کے حتمی مرحلہ تک یہ بخار کس حد تک جائے گااور کہاں اس میں ٹھہرائو آپا ئے گا۔
یہ بخار کچھ اس طرح کاہے کہ اس میں مبتلا افراد کو اس بات کا بھی خیال نہیں رہتا کہ انہوںنے ۲۴؍ گھنٹے قبل کیا کہا تھا اور ۲۴؍ گھنٹے بعد کیا کہہ رہے ہیں ۔ یہ تضادات کا ایسا بدترین اور بدصورت امتزاج ہے جس کی نظیرنہیں ملتی ۔ اس حوالہ سے جموں وکشمیر کے کئی ایک سیاست کاروں کے بیانات، دعوئوں اور مطالبات کو بطور عینی گواہ کے پیش کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ کہ آیا کیا ان پیشہ ور سیاست دانوں کو اپنی ان قلابازیوں، کروٹوں اور یوٹرنوں کا احساس ہے، اپنی جگہ کوئی شرمندگی ہے اور کیاان کے اردگرد منڈلانے والے ان کے اپنے ہز؍ ہر ماسٹر کا سا کردار اداکرنے کے بجائے انہیں ان قابازیوں کی طرف متوجہ نہیں کرتے؟
مثالیں اور معاملات کئی ہیں تاہم اکتفا چند ایک پر کرتے ہیں۔ کانگریس نے جموں خطے کے دو پارلیمانی حلقوں کیلئے رمن کمار بھلہ اور حال ہی پارٹی میں واپس آئے چودھری لال سنگھ کو منڈیٹ تفویض کیا۔ رمن کمار بھلہ جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کے فوری انعقاد، ریاستی درجہ کی بحالی، سلب شدہ آئینی حقوق کی واپسی ، زمین کے ملکیتی حقو ق اور ملازمتیں مقامی شہریوں کے لئے وقف رکھنے ایسے مطالبات کا اعادہ کیا، لیکن چودھری لال سنگھ کا نظریہ اور موقف رمن بھلہ سے ہٹ کر بلکہ متصادم ہے، لال سنگھ ماضی قریب میں کشمیراور کشمیریوں کے خلاف اپنی ہر قسم کی بھڑاس نکالتے رہے ہیں، وہ جموں کو کشمیر سے علیحدہ رکرکے جموں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست اور علیحدہ اسمبلی کی تشکیل کا موقف رکھتے ہیں اور اپنے اس نظریہ کا قدم قدم پر وہ کھل کر اظہار بھی کرچکے ہیں، چودھری لال سنگھ جموں کیلئے کشمیرکو انیفیکشن قرار دیتے رہے ہیں،وہ علاقائی تعصبات کو بھی ہوا دیتے رہے ہیں اس تعلق سے وہ ایک مرحلہ پر جموں نشین ایک جٹ نامی چند وکلا پر مشتمل تنظیم کے ساتھ بھی ہاتھ ملا چکے ہیں۔
اگر چہ کانگریس کے جموں وکشمیر انچارج بھرت سنگھ سولنکی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے انتخابی میدان میں ’’دو بہترین اُمیدوار‘‘ اُتار ے ہیں جو پارلیمنٹ میں جاکر جموں وکشمیر کے عوام کے سلب شدہ منفرد تشخص حقوق اور درجہ کی بحالی کیلئے خودکو وقف کریں گے لہٰذا رائے دہندگان کے لئے لازم ہے کہ وہ انہیں کامیاب بناکر حکمران جماعت بی جے پی کو ان کی زیادتیوں کیلئے سبق سکھا ئیں۔
کانگریس اپنے دو نامزد اُمیدواروں کے اس واضح تضاد کو کیسے پاٹے گی، کیا وہ رمن بھلہ کے موقف کو جموں وکشمیر کے معاملات کے حوالہ سے برحق اور عوامی خواہشات سے ہم آہنگ تصور کرکے اس کی سرپرستی کرے گی یا چودھری لال سنگھ کے جموں پر مشتمل الگ ریاست کی تشکیل کے نظریہ کی آبیاری ، سرپرستی اور حمایت کرے گی،اس صورت میں کانگریس ہائی کمان کے اس موقف کہ ریاستی درجہ بحال کیاجانا چاہئے، عوام کے سلب شدہ آئینی اور انتظامی حقوق بشمول ملکیتی حقوق کی بحالی کو ترجیح طور پر ایڈریس کیا جائے کیا سیاسی دھوکہ دہی، فریب، ریاکاری اور چھل تصورنہیں کیاجائے گا؟
باہم تضاد کے اس ایک چہرے کا تعلق کانگریس سے مخصوص ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کانگریس جموںوکشمیر میں اپوزیشن اتحاد …انڈیا کی بھی قیادت کررہی ہے جس اتحادمیں محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس بحیثیت اکائیوں کے شامل ہیں۔ نیشنل کانفرنس چودھری کو پسند نہیں کرتی اور چودھری نیشنل کانفرنس کی قیادت کے خلاف ماضی قریب میں اپنے نظریات کو زبان دیتے رہے ہیں۔ اسی طرح محبوبہ مفتی اور چودھری کے درمیان تقریباً چوہا بلی کا رشتہ ہے، یہ اُس وقت سے ہے جب محبوبہ مفتی مخلوط حکومت کی سرپرستی کررہی تھی اور لال سنگھ بی جے پی کے رکن کی حیثیت سے وزارتی کونسل کا رکن تھے لیکن انہیں وزارتی کونسل کی رکنیت سے ہاتھ دھونے پڑے کیونکہ لال سنگھ کی قیادت میں رسانہ کٹھوعہ میں۸؍سالہ کمسن بچی کے اغوا، اجتماعی عصمت دری اور سفاکانہ قتل میںملوث درجن بھر افراد کے حق میں تحریک برپا کی ، جس لال سنگھ کے رول کو کانگریس ہائی کمان سے وابستہ کچھ بڑے لیڈروںنے سخت برہمی اور ناپسندیدگی کااظہارکیا تھا۔
باہم تضاد کے چہرے کا دوسرا رُخ غلام نبی آزاد اور سید الطاف بخاری کی قیادتوں میں ان کی پارٹیوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ دونوں انتخابی میدان میں اطلاعت کے مطابق آپس میں گٹھ جوڑ کی خواہش رکھتے ہیں، اگر چہ آزاد نے کٹھوعہ میں ایک اجتماع کے حاشیہ پر ایسے کسی مفاہمت یاگٹھ جوڑ کی نفی کی ہے لیکن کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ مشاور ت جاری ہے۔
سید الطاف بخاری مسلسل دعویٰ کررہے ہیںکہ اس کی پارٹی نے زمین کے ملکیتی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے اور سرکاری ملازمتوں میں سو فیصدمقامی باشندوں کیلئے وقف کرنے کا مطالبہ مرکزی قیادت کے ساتھ بات کرکے منوالیا ہے لیکن آزاد بار بار اقتدارمیں آنے کی صورت میں ان مخصوص معاملات کی ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے قبل کی پوزیشن پر بحالی کی سمت میں اقدامات اُٹھانے کی یقین دہانی کرارہے ہیں۔
اس تضاد کے ہوتے کیا ان دونوں کا باہم گٹھ جوڑ کسی کامیابی سے ہم کنار ہوسکتا ہے؟کیایہ پارٹیاں عوام کو جاہل اور بے وقوف تصور کررہی ہیں کہ ان کے دعویٰ کسی کے سمجھ اور فہم سے بالا تر ہیں۔ اگر سید الطاف بخاری کے دعویٰ سو فیصد نہ سہی پچاس فیصد ہی سہی سچ ہے تو پھر دوسری کم وبیش سبھی پارٹیاں پھر کیوں اور کس بُنیاد پر آئینی ، انتظامی اور ملکیتی حقوق کی بحالی کی مانگ کررہی ہیں۔
لوگوں کی اکثریت پیشہ ور سیاست کاروں کے اس نوعیت کے چونچلوں اور قلابایوں کو اچھی طرح سے سمجھ رہی ہے اور دیکھ بھی رہی ہیں کہ کون کیا کررہا ہے اور کس کے پیچھے کون تاریں ہلا رہا ہے۔ لیکن سیاست کارہیں کہ یہ لوگوں کو بے وقوف اور ناسمجھ تصور کرنے کی ضد اور ہٹ دھرمی کے راستے پر ہی گامزن ہیں اور خود کو کوئی اور ہی مخلوق سمجھ رہے ہیں۔