ہزاری باغ//
بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نتن اگروال نے جمعرات کو کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہو رہا ہے کہ پاکستان نے حال ہی میں بین الاقوامی سرحد کے ساتھ طے شدہ طویل جنگ بندی کو کیوں توڑا۔’’ فلیگ میٹنگ کے دوران اس کے افسران کی طرف سے پیش کردہ کوئی قابل یقین وضاحت نہیں سامنے آئی ‘‘۔
اگروال بی ایس ایف کے۵۹ویں یوم تاسیس کے موقع پر جھارکھنڈ میں ہزاری باغ کے میرو علاقے میں بارڈر سیکورٹی فورس کے کیمپ میں سالانہ پریس میٹنگ کے دوران صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔
بی ایس ایف سربراہ نے کہا’’جہاں تک جنگ بندی کی خلاف ورزی کی وجہ ہے‘ ہمارے پاس کوئی سراغ نہیں ہے۔ ہم ہر پہلو کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ فلیگ میٹنگز کے دوران وہ (پاک رینجرز) اس (جنگ بندی کی خلاف ورزی) کی جو وجوہات بتاتے رہے ہیں وہ بالکل بھی قائل نہیں ہیں‘‘۔انہوں نے (پاک رینجرز) خود محسوس کیا کہ وہ قائل نہیں لگ رہے ہیں۔ انہوں نے صرف اس کی خاطر کچھ ذکر کیا۔ابھی اس کا کوئی قطعی جواب نہیں ہے‘‘۔
پاک رینجرز نے اکتوبر میں سرحد پار سے گولہ باری شروع کی جوجموں سیکٹر میں۲۰۲۱کے بعد پہلی بڑی جنگ بندی کی خلاف ورزی تھی‘جس میں ایک بی ایس ایف جوان اور ایک خاتون زخمی ہوئی۔
۲۵فروری۲۰۲۱ کو دونوں فریقوں کے جنگ بندی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے مجموعی طور پر کم از کم چھ خلاف ورزیاں ہو چکی ہیں۔
بی ایس ایف کے ڈی جی نے کہا کہ فورس نے جنگ بندی کی ان خلاف ورزیوں کے دوران’موثر‘جوابی فائرنگ کی اور’’دوسری طرف سے بھاری جانی نقصان کی متعدد ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں‘‘۔
ایک سینئر افسر نے بتایا کہ بی ایس ایف کی فائرنگ میں کم از کم سات پاک رینجرز کے مارے جانے کا اندازہ ہے۔’’میں ملک کو یقین دلا سکتا ہوں کہ بی ایس ایف مؤثر طریقے سے سرحدوں کی حفاظت کرے گا‘‘۔
پیرا ملٹری فورس کے سربراہ نے کہا کہ گزشتہ سال نومبر سے اس سال اکتوبر کے درمیان انہوں نے ۹۰ ڈرونز برآمد کیے جو پاکستان سے بھارتی حدود میں داخل ہوئے تھے۔ان میں سے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق۸۱ پنجاب سے برآمد ہوئے، جبکہ باقی راجستھان سے تھے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اسی عرصے کے دوران، فورس نے بغیر پائلٹ کے ۳۰۰کے قریب فضائی گاڑیاں دیکھیں، جو زیادہ تر پاکستان سے سرحدی ریاست پنجاب میں منشیات کی سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
بی ایس ایف کے ڈی جی نے کہا کہ ہم نے گزشتہ ایک سال کے دوران مغربی محاذ (پاک بھارت سرحد) سے تقریباً ایک ہزار کلوگرام ہیروئن برآمد کی ہے۔
اگروال نے کہا کہ ہم جن ڈرون کو مار گراتے ہیں اور بازیافت کرتے ہیں وہ زیادہ تر چین میں بنائے جاتے ہیں اور جب بھی ہم اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو سرحد پار اس مجرمانہ سرگرمی کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ انکار کرتے ہیں۔