سرینگر//
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے چاڈورہ علاقے میں ایک گائوں کی زرعی اراضی پر تاحد نظر مختلف قسموں کی سبزیوں کے سر سبز و شاداب باغیچے نظر آ رہے ہیں جن میں مرد و زن اور مقامی و غیر مقامی مزدوروں کو کام میں انتہائی مشغول دیکھا جا رہا ہے ۔
بوگام کے نام سے موسوم سے گائوں کو بھاری مقدار اور معیاری سبزیاں پیدا کرنے کیلئے’منی پنجاب‘کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔
اس گائوں کے کسان اراضی پر آمدنی کو بڑھانے کیلئے میوہ باغ لگانے کے بجائے مختلف قسموں کی سبزیاں اگانے کو ہی ترجیح دے رہیں اور اب یہ رجحان ملحقہ علاقوں میں بھی پھیل رہا ہے ۔
فیاض احمد نامی ایک مقامی کسان نے یو این آئی کو بتایا ’’ہمارے گائوں میں تمام کسان سبزیاں اگا کر ہی نہ صرف اپنے عیال کو پالتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی روز گار فراہم کرتے ہیں‘‘۔
احمد نے کہا کہ ہمارے گائوں کے زمیندار سال بھر اسی کام کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔
شوکت احمد نامی ایک اور کسان نے کہا’’ہم یہاں مختلف قسموں کی سبزیاں اگا رہے ہیں جن کو ہم جموں بھی بھیجتے ہیں اور یہاں کی منڈیوں میں بھی ہمارے گائوں کی سبزیاں جاتی ہیں‘‘۔شوکت نے کہا کہ ہم سال بھر اس کام کے ساتھ مصروف رہتے ہیں کھیتوں میں مرد و زن کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا’’مقامی و غیر مقامی مزدور بھی یہاں کھیتوں میں کام کرتے رہتے ہیں ہر کسان کے پاس کم سے کم۸مزدور مارچ سے نومبر تک کام کرتے ہیں‘‘۔
شوکت نے کہا’’ ہم خود بھی اچھی خاصی کمائی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی روز گار فراہم کرتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے کی سبزیاں معیاری سبزیوں میں شمار کی جاتی ہیں اور بہتر سبزیاں اگانے میں ہم لوگ بھی دن رات ایک کرتے ہیں۔
ایک اور کسان نے کہا کہ یہاں لوگ باغبانی کے بجائے سبزیاں اگا کر روزی روٹی کمانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔انہوں نے کہا’’میں گذشتہ بیس برسوں سے اپنی اراضی پر مختلف قسموں کی سبزیاں اگا کر اپنے عیال کو بھی اچھی طرح سے پالتا ہوں اور کئی لوگوں کو بھی کمانے کیلئے کام دیتا ہوں‘‘۔ان کا کہنا تھا’’میں اسی کام سے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کرتا ہوں اور ان کی دیگر ضررویات بھی اچھی طرح سے پوری کرتا ہوں‘‘۔
کسان نے کہا ’’ہمارے پاس زرعی اراضی ہے ۔محنت کرنے کی ضرورت ہے ہمیں روزگار کی تلاش کے لئے در در کی ٹھو کریں کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم دوسروں کو روزگار فراہم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں‘‘۔اس نے کہا کہ ہم جو سبزیاں تیار کرتے ہیں وہ معیاری اور ذائقہ دار ہیں لہذا ان کی مانگ بھی زیادہ رہتی ہے ۔
کسان نے کہا کہ اب ہمارے ہمسایہ علاقوں نے بھی اراضی پر میوہ باغ لگانے کے بجائے سبزیاں اگانا شروع کی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ نوجوان بھی کھیتوں میں کام کرکے اپنا روزگار کما رہے ہیں بلکہ کئی نوجوان حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ سبزیاں اگانے میں اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ہماری مدد کرے گی تو یہ شعبہ مزید مستحکم ہوگا جس سے بے روزگاری کے خاتمے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے ۔
محمد امین نامی ایک بیوپاری نے کہا کہ اس کاروبار کے ساتھ بھی کئی لوگوں کی روزی روٹی وابستہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ سبزیاں ہر گھر کی ضرورت ہیں خواہ وہ امیر گھرانہ یا غریب خاندان ہے لہذا یہ شعبہ بڑھنے والا ہی ہے یہ کبھی زوال کا شکار ہو ہی نہیں سکتا ہے ۔