پونچھ/جموں//
ایک۳۵سالہ شخص، جس نے گزشتہ ہفتے پونچھ کے جنگجو حملہ کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے پولیس کے بلائے جانے پر مبینہ طور پر زہر کھا لیا، جمعرات کو فوت ہو گیا۔
ضلع کی تحصیل مینڈھر کے گاؤں نار کے رہائشی مختار حسین شاہ پریشان تھے کیونکہ انہیں کچھ گھریلو مسائل کا سامنا تھا۔شاہ نے مبینہ طور پر منگل کی شام اپنے گھر میں زہر کھا لیا۔
ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ اسے گورنمنٹ میڈیکل کالج، راجوری میں داخل کرایا گیا، جہاں جمعرات کی صبح اس کی موت ہو گئی۔
عہدیدار نے کہا کہ شاہ نے یہ قدم چند گھنٹوں کے اندر اٹھایا جب انہیں بھاٹا دھوریاں جنگل میں عسکریت پسندوں کے ذریعہ۲۰؍اپریل کو گھات لگا کر کئے گئے حملے کے سلسلے میں پوچھ گچھ کیلئے رپورٹ کرنے کو کہا گیا جس میں پانچ فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
سرکاری عہدیدار نے کہا’’وہ مشتبہ نہیں تھا (دہشت گردی کے حملے کے معاملے میں) لیکن اسے اس کے گاؤں کے زیادہ تر باشندوں کی طرح پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا جو حملے کی جگہ کے قریب واقع ہے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اسے گھریلو مسائل کا سامنا ہے اور وہ پریشان تھا‘‘۔
سیکورٹی فورسز نے بھاٹا دھوریاں میں حملے کے بعد جاری جنگجو مخالف آپریشن میں۶۰سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے، جو کہ اس کی ٹوپوگرافی، گھنے جنگلات کے احاطہ اور قدرتی غاروں کی وجہ سے لائن آف کنٹرول کے پار سے عسکریت پسندوں کی دراندازی کا ایک بدنام راستہ ہے۔
بڑے پیمانے پر تلاشی اور محاصرے کی کارروائی کو پونچھ اور قریبی راجوری دونوں اضلاع کے کئی علاقوں تک بڑھا دیا گیا ہے لیکن ان جنگجوؤں سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا ہے جو ہلاکت خیزحملے کے بعد فرار ہو گئے تھے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ایک مشتبہ شخص نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے دو ماہ سے زائد عرصے تک عسکریت پسندوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کیا اور اس سے مزید پوچھ گچھ جاری ہے۔
اسپیشل فورسز بھی سرچ آپریشن میں مصروف ہے جو جمعرات کو اپنے آٹھویں دن میں داخل ہو گیا۔عہدیدار نے مزید کہا کہ ایجنسیاں اس آپریشن میں ڈرون‘سراغ رساں کتے اور میٹل ڈیٹیکٹر استعمال کر رہے ہیں۔
ذرائع نے پہلے بتایا تھا کہ دو گروپوں میں سات سے آٹھ عسکریت پسندوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس حملے کو انجام دیا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق عسکریت پسندوں نے مبینہ طور پر سڑک پر ایک پل کے نیچے خود کو چھپا رکھا تھا جہاں سے انہوں نے اس ٹرک پر حملہ کیا جو کہ بھمبر گلی کیمپ سے سنگیوٹے گاؤں کو پھل، سبزیاں اور دیگر اشیاء لے کر جا رہا تھا جس کا اہتمام راشٹریہ رائفلز کی طرف سے افطار کیلئے کیا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ گاڑی پر گولیوں کے۵۰سے زیادہ نشانات تھے اور ان سے عسکریت پسندوں کی فائرنگ کی شدت ظاہر ہوتی ہے۔
آپریشن میں شامل فوجی انتہائی احتیاط برت رہے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے گہری وادیوں اور غاروں کے ساتھ گھنے جنگلاتی علاقے میں دیسی ساختہ بم نصب کیے ہوں۔
مارے گئے فوجیوں کا تعلق انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے تعینات راشٹریہ رائفلز یونٹ سے تھا۔
عہدیدار نے بتایا کہ نیشنل سیکورٹی گارڈ (این ایس جی) اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) سمیت مختلف ایجنسیوں کے ماہرین نے حملے کی جگہ کا دورہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک سنائپر نے گاڑی کو آگے سے نشانہ بنایا اس سے پہلے کہ اس کے ساتھیوں نے مخالف سمت سے گاڑی پر دستی بم پھینکے اور بظاہر فوجیوں کو جوابی کارروائی کا وقت نہ دیا۔انہوں نے کہا’’عسکریت پسندوں نے اسٹیل کور گولیاں استعمال کیں جو بکتر بند ڈھال میں گھس سکتی ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، فرار ہونے سے پہلے، عسکریت پسندوں نے فوجیوں کے ہتھیاروں کو چھین لیا۔(ایجنسیاں)