کیاآزاد صاحب کو کشمیر کی سیاست میں سنجیدہ لینے کی واقعی کوئی گنجائش ہے؟… وہ بھی تب جب کہ انہوں نے کانگریس کا ساتھ چھوڑا ہے؟سچ پوچھئے تو اس سوال کا جواب اتنا بھی آسان نہیں ہے ۔آسان اس لئے نہیں ہے کہ بات کشمیر کی ہے ‘ جموںکشمیر کی … کسی اور یوٹی ‘ ملک کی کسی اور ریاست کی ہوتی تو شاید جواب اتنا مشکل نہیں ہوتا… لیکن کیاکیجئے گا کہ یہ کشمیر ہے… اور یہاں کچھ بھی یونہی نہیں ہوتا ہے… اگر ہوا تھوڑی تیز چلتی ہے تو… تو ہوا کا یوں تیز چلنا بھی یونہی نہیں ہو تا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہو تا ہے … کہ کہنے والوں کاکہنا ہے کہ کشمیر میں ہر ایک کہانی کے پیچھے ایک اور کہانی نہیں بلکہ کئی ایک کہانیاں ہو تی ہیں… اس لئے صاحب ایک بات تو طے ہے کہ … کہ آزاد صاحب کا کانگریس سے مستعفی ہونا …پھر کشمیر میں ایک نئی جماعت کا اعلان کرنا … پھر الیکشن میں حصہ لینے کاارادہ ظاہر کرنا …پھر ۳۷۰ کے بارے میں باتیں کرنا … پھر یہ کہنا کہ میں لوگوں کو ایسے ویسے خواب نہیں دکھاؤں گا… ان کی ان سب باتوں کے پیچھے یقینا کوئی بات ہو گی‘ کئی باتیں ہو ں گی… ایسی باتیں ‘ ایسی کہانیاں جن سے آپ اور ہم باخبر نہیں ہیں… بالکل بھی نہیں ہیں ۔خیر!لوٹ آتے ہیں اس سوال پر کہ کیا آزاد صاحب کو کشمیر کی سیاست میں سنجیدہ لینے کی کوئی صورت ‘ کوئی گنجائش نکل آتی ہے تو… تو صاحب ہم پھر کہیں گے کہ ہمیں اس کا جواب آسان نظر نہیں آرہا ہے… ہاں اگر کچھ نظر آرہا ہے تو… تو یہ نظر آرہا ہے کہ دہلی … مودی جی کی دہلی کیلئے آزادصاحب کو کشمیر کے دوسرے سیاستدانوں کے مقابلے میں سنجیدہ لینے کی گنجائش نکل آتی ہے … اور سو فیصد آتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اور اپنی میڈ م محبوبہ جی بات بات اور ہر ایک بات میں مسئلہ کشمیر‘ پاکستان اور دفعہ ۳۷۰ کہ بات کرتے ہیں… اور اللہ میاں کی قسم آزاد صاحب مسئلہ کشمیر کی بات کرتے ہیں اور نہ پاکستان کی ۔ دفعہ ۳۷۰ کا البتہ ذکر ضرور کرتے ہیں اور…اور یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ … کہ اس کی بحالی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے … ان کے کیا کسی بھی اپوزیشن جماعت کے ہاتھ میں نہیں ہے…اور سچ پو چھئے توان کی یہ باتیں سنجیدہ ہیں… کسی کو یہ پسند آئیں یا نہیں لیکن دہلی … مودی جی کی دہلی کو ضرور پسند آ ئیں گی اور… اور آ رہی ہیں ۔ آزاد صاحب اور ان کی باتیں بھی ۔ہے نا؟