ایران میں حجاب مخالف مظاہرین پر گذشتہ چند دنوں سے گولیوں کی برسات جاری ہے اور اب تک ۷۵ حجاب مخالفین ابدی نیند سو چکے ہیں۔ ایرانی حکومت نے اب تک ۱۷؍ سرکردہ صحافیوں اور ۱۲۰۰؍ سے زائد دانشوروں ؍شہریوں کو بھی گرفتار کرلیا ہے جبکہ چھاپوں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
ایران کی اس صورتحال کو امن وقانون کا مسئلہ قرار نہیںدیاجاسکتا ہے بلکہ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو نظریاتی بھی ہے، جس میں زور زبردستی کا عمل دخل بھی نمایاں ہے، جس کا اسلام یاشریعت کے نام پر سڑکوں پر بھر پور طاقت کے استعمال کے ساتھ مظاہرہ بھی کیاجارہاہے بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک آواز، جس کا تعلق صنف نازک کی اپنی ذاتی خواہش ، پسند اور ناپسند سے براہ راست ہے یا جسے پاکستانی خواتین کے نظریہ ’میرا جسم میری مرضی‘ سے دیکھنے اورسمجھنے کی کوشش بھی ہے کو دبانے اور کچلنے کی ایک منظم کوشش سے ہے جس کی سرپرستی ایران کی حکومت کررہی ہے۔
یہ صورتحال جو اب ایران کی سڑکوں کو لہو رنگ کرتی نظرآتی ہے اس وقت پیدا ہوئی جب حجاب کی مخالفت میں ایک خاتون کو ایران کی ’مارل پولیس ‘نے حراست میں لیا، حراست کے دوران اس پر انتہائی تشدد کیا گیا اور بالآخر اس کی حراست میں موت واقع ہوئی۔نوجوان خاتون کے زیر حراست سفاکانہ قتل کے خلاف لوگ سڑکوں پر آگئے، مظاہرے کئے، احتجاجوں کومنظم کیا لیکن ایرانی پویس اور مارل پویس (جو بادی النظرمیں ماورائے قانون اور ماورائے عدالت ہے) بجائے اس کے کہ وہ تحمل اور دانشمندی سے کام لیتی اور مظاہرین کے مشتعل جذبات کو سرد کرنے کی کوشش کرتی اس نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور شہریوں پر گولی باری کی برسات مسلط کرکے ان کی ابدی موت بلکہ قتل عمد کا نیا فلڈ گیٹ کھول دیا۔
اسلام میں اور شریعت کی روشنی میں’پردہ‘ کی اہمیت واضح ہے یہ زیر بحث نہیں۔ گذشتہ ساڑھے۱۴؍ سو برسوں سے محدثین، علماء، فقہا، مفتیان کرام، سارے مسلکوں کے امام پردہ پر متفق ہیں،لہٰذا اسلام کی پیروکار خواتین کیلئے لازم ہے کہ وہ پردہ کا اہتمام کریں اور سماج میں بے حیائی اور بے پردگی کو تقویت دینے کا موجب نہ بن جائے، البتہ جو خواتین پردہ یا حجاب کو پسند نہیں کرتی اور اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گذارنا چاہتی ہیں انہیں ان ہی کے حال پر چھوڑدینا چاہئے، انہیں زورزبردستی ، جبر اور طاقت کے بل بوتے پر پردہ ؍حجاب کا پابند بنانا کئی اعتبار سے درست یاجائز نہیں۔
اس حوالہ سے یہ امر ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے کہ اسلام نہ تلوار، نہ زورزبردستی ، نہ تبدیلی مذہب، نہ سٹیٹ کی طاقت ، نہ کسی عسکری قوت کے بل پر پھیلا ہے اور نہ ہی غیر مسلم عقیدہ رکھنے والے لوگ قوت بازو کے بل پر مشرف بہ اسلام ہوئے بلکہ وہ مشرف بہ اسلام ہوتے گئے تو حسن اخلاق، اسلام جو مذہب نہیں بلکہ دین ہے جس کو اصل میں دین فطرت بھی کہاجارہاہے کے آفاقی پیغام باالخصوص مسلمان حکمرانوں کی صلہ رحمی، لوگوں کے ساتھ معاشرتی، معیشتی، اخلاقی اور انصاف پر مبنی رویوں اورفیصلہ سازی سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے۔ اسلام کی تاریخ ایسے لاکھوں معاملات اور واقعات سے مزین ہے۔ اس تناظرمیں ایرانی حکومت اور اس کی چھتر چھایا اور سرپرستی میںکام کررہی مارل پولیس کاطریقہ کار اور اپروچ نہ صرف زور زبردستی سے عبارت قرار دیاجاسکتاہے بلکہ اسلام اور شریعت کے بُنیاد اصولوں سے متصادم بھی نظرآرہاہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا ایران میں الف سے ی تک سارے معاملات، روزمرہ، معاشرتی، اقتصادی ، حکومتی ،انتظامی ، تہذیبی وغیرہ اسلام اور شریعت کے بُنیادی اصولوں کے مطابق ہو رہے ہیں، جواب ہر گز تسلی بخش یا اطمینان بخش نہیں۔ اس مرحلہ پر انسانی حقوق یا حقوق نسوانی کے تحفظ یا پامالی پر بات نہیں کریںگے ، کیونکہ وہ الگ سے اشوع ہے۔
بظاہر حجاب یا عدم حجاب کے استعمال کا تعلق ایران کے اندرونی اور ذاتی معاملات سے ہے، ایران سے دور کشمیر کو ایسے معاملات سے کوئی سروکار نہیں لیکن دوسری طرف کشمیر او ر ایران کے درمیان صدیوں پرانے تعلقات ہیں جبکہ کشمیر کو ایران صغیر بھی کہاجاتاہے ۔ کشمیر اور ایران کے درمیان بہت سارے رشتہ بھی ہیںاور کچھ ایک معاملات کے ضمن میں بہت ساری قدریں بھی مشترک ہیں لہٰذا اس تعلق کے حوالہ سے کسی بھی اشو کو لے کر عام شہریوں کی ہلاکتیں اور طاقت اور جبر کے سہارے لوگوں کی آوازوںکو دبانا اور ان کی خواہشات کو کچل کے رکھدینے کی کوئی بھی کوشش باعث تکلیف بھی ہے اور سوہان روح بھی۔
نقیب انقلاب امام خمینی کے جانشینوں کیلئے لازم ہے کہ وہ آمریت کاراستہ اختیار نہ کریں بلکہ اسلامی تعلیمات ، اخلاق حسنہ، اسلامی فتوحات کی قیادت کرنے والے جان بازوں کے اقلیتوں کے تئیں خلق اور احسان ،دنیاوی معاملات اور حسن سلوک کو ہر گز صرف نظر کرنے کی دانستہ یا غیر دانستہ جسارت نہ کریں۔ جو لوگ پردہ ؍حجاب میں یقین نہیں رکھتے یا پسند نہیں کرتے انہیں ایساکرنے کی ترغیب اور تحریک دی جاسکتی ہے اور پردے کی اہمیت اور شرعی ضرورت سے آشنا کرتے ہوئے پردے اور حجاب کا قائل کیاجاسکتا ہے ۔لیکن اگرایرانی حکومت نے اپنے شہریوں ، جوہر اعتبار سے ایران کے محب وطن ہیں، کسی ملک کے ایجنٹ نہیں، البتہ روزمرہ زندگی کے تعلق سے اور کچھ معاملات کے حوالہ سے اپنی مخصوص پسند اور ناپسند رکھتے ہیں کے خلاف تشدد، طاقت کابے دریغ استعمال، پکڑ دھکڑ اور جبر قہر ایسے حربے اور ہتھکنڈوں کا استعمال ایران کو واپس اُس مقام کی طرف دھکیل سکتا ہے جو سالہاسال تک ایران کا طرہ امتیاز رہاہے اور جس کو زمین بوس کرنے کا کریڈٹ امام خمینی کی قیادت میں اُس انقلاب کو جاتا ہے جو گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں چشم بینا مشاہدہ کرچکی ہے۔