ست پال ملک سابق گورنر کے بارے میں جموں وکشمیر میں اکثر لوگوں کا تاثر یہی رہا ہے کہ انہوں نے حساس اور غیر حساس نوعیت کے معاملات پر کبھی راست گوئی سے کا م نہیں لیا، عوامی حلقوں میں کی جارہی مختلف معاملات کے حوالہ سے قیاس آرائیوں، خبروں یا اطلاعات کو وہ عموماً افواہیں ہی قرار دے کر مسترد کرتے رہے اور جب اگلے ہی لمحے یہی کی جارہی قیاس آرائیاں اور اطلاعات حقیقت کا روپ دھارن کرکے سامنے آتی رہی تو ست پال ملک صاحب کی افواہوں پر ہر حلقہ حیران وششدر ہوتارہا۔ البتہ ملک صاحب کی ایک بات پر لوگ ان کے شکر گزار رہے کہ وہ بار بار ملکی میڈیا اور سیاست سے وابستہ کچھ حلقوں کی جانب سے کشمیراور کشمیریوں کو ’عفریت‘ کے طور پیش کرنے پر سرزنش کرتے رہے ۔
اب کی بار ست پال ملک صاحب نے پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ چھ ممبران اسمبلی کی حمایت کا پروانہ لے کر ان کے پاس آئے اور وزارت سازی کا یہ کہکر دعویٰ پیش کیا کہ حکومت کا تخت سنبھالنے کے فوراً بعد ایک ہفتہ کے اندر اندر ایوان اسمبلی میں اکثریت ثابت کریں گے۔
سابق گورنر کا یہ دعویٰ چار سال بعد سامنے آیا ہے۔ اب اس دعویٰ کے بارے میں وثوق سے کہا نہیں جاسکتا کہ اس میں سچ کس حد تک ہے اور جھوٹ کا تناسب کتناہے۔ بہرحال اگر ست پال ملک صاحب نے جموں وکشمیر کے تعلق سے حساس اور غیر حساس معاملات پر کبھی سچ بولا ہوتا، صاف گوئی سے کام لیا ہوتا توآج ان کی کہی کسی بات یا دعویٰ کی صحت کی جانب انگلی نہ اُٹھتی۔ پھر بھی سجاد غنی لون کی خواہش کو اگر سچ پر محمول تصور کیاجائے تو سیاسی تناظرمیں باالخصوص حکومت سازیوں کے موجودہ طریقہ کار کے تعلق سے اس میں کوئی قباحت نہیں۔
کون سیاستدان اقتدارنہیں چاہتا، کون سیاستدان اپنے اوراپنے ساتھیوں کے لئے حکومتی خزانے سے مراعات کی خواہش نہیں کرتا، پھر یہ بھی تو تلخ سچ ہے کہ کوئی بھی سیاستدان، چاہئے اس کا قد کچھ ہی کیوں نہ ہو، خود کو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا، کیونکہ سیاستدانوں کی اپنی خواہش اتنی زیادہ ہیں کہ وہ ہر خواہش پر مرمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ زمانہ آج کا کچھ ایسا ہے کہ اس زمانے میں اورنگ زیب، جو ہاتھ سے ٹوپیاں سل سل کر گذارہ کیا کرتے اور نہ ہی چھتر پتی شیوجی مراٹھا عوام کے درمیان ہے جو عوام کی ترقی، خوشحالی اور سب سے بڑھ کر عزت وقار اور امن کے قیام کیلئے سب کچھ دائو پر لگانے کا نصب العین رکھتے ہیں۔
کشمیر نشین کسی ایک سیاست کار کی طرف انگلی اُٹھاکر یہ دعویٰ کرے کہ ا س نے اپنی سیاست، اپنا کیرئیر اور اپنی فکر سب کچھ عوام کی فلاح وبہبود ،ترقی ،امن اور عزت وقار کیلئے وقف کردی ہے یا دائو پر لگا کر کشمیرکی عصری تاریخ میںاپنے لئے کسی سنہرے باب کا عنوان ہی رقم کیا ہے۔
ست پال ملک سجاد غنی لون کے بارے میں اپنے دعویٰ میں اسی حد تک محدود نہیں رہے، ان کا کہنا ہے کہ سجاد غنی لون کشمیرمیںمرکز کے ’چہیتے یا منظور نظر‘ ہیں۔ مرکز کا منظور نظر یا چہیتا ہونا کون سا گناہ ہے یا گالی، خود سجاد کئی بار اپنے انٹرویوز اور تقریروں میں وزیراعظم نریندرمودی کو بڑا بھائی او رسابق وزیراعلیٰ پی ڈی پی کی سرپرست محبوبہ مفتی کو اپنی بہن کہا کرتے تھے۔
منظور نظر یا چہیتا ہونا کون سا حیرانی یا طعنہ زنی کا مقام ہے۔ پتہ نہیں کہ ست پال ملک نے سجاد لون کے مرکز کے منظور نظر ہونے کی بات کس مخصوص نیت، نظریہ یا فکر کے تناظرمیں کی ہے۔ کیا وہ سجا د لون کی کردار کشی کرکے یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر کے مخصوص سیاسی پس منظرمیں لوگوں کا ایک حلقہ ان سے متنفر ہوجائے یا کچھ حلقوں پر یہ باور کرایا جائے کہ دیکھو سجاد لون کشمیرمیںمرکز کا ایجنٹ ہے؟ توقع نہیں کہ جو شخص ریاست کا آئینی سربراہ رہا ہو اور فی الوقت بھی ایک ریاست کا آئینی سربراہ ہے اُس کی زبان سے ایسے بیہودہ اور غیر متعلقہ کلمات اداہوتے رہیں۔ یہ غیر ذمہ داری اور آئین شکنی کی انتہا ہے۔
سابق گورنر نے اپنے اس بیان میں اقتدار سے بے دخل محبوبہ مفتی کے بارے میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ محبوبہ نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ساتھ مل کر نئی حکومت کی تشکیل کا دعویٰ کیا لیکن راج بھون میں فیکس کی خرابی کے پیش نظر وہ دعویٰ ان کے پاس نہیں پہنچ سکا۔ دوسری غلطی محبوبہ مفتی نے یہ کی کہ اس نے متعلقہ حمایتی پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس طلب کرکے دعویٰ پیش نہ کرنے میں غلطی کی۔
راج بھون میں اُس زمانے میں فیکس کی خرابی ملکی سطح پر ایک مضحکہ خیز اشو کے طور پر ٹریٹ کیاگیا جبکہ ملک کا میڈیا بھی اس دعویٰ کا بھر پور مذاق اُڑاتارہا۔ سچ تو یہ ہے کہ ست پال ملک نے جو کچھ بھی کیا، جو اقدام اُٹھائے ان کے حوالوں سے اس کی نیت میں فتورتھا، وہ مخلص نہیں تھے، نہیں چاہتے کہ جموں وکشمیرمیں امن سلامتی اور استحکام رہے، چنانچہ اپنی ان نیتوں کو چھپانے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے وہ جھوٹ ہی کا سہارا لیتے رہے ، عوام کے خدشات اور تحفظات کو افواہیں قراردیتے رہے، دوسری طرف پچاس ہزار نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرنے کا بار بار دعویٰ کرکے وہ نوجوانوں کی صف میں اپنی شبیہ صحتمند بنائے رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
جتنی مدت تک ست پال ملک راج بھون کے مسند پر متمکن رہے اُس مدت کے دوران ان سے کوئی ایک کارنامہ یا اچھائی منسوب نہیں جس پر آج کی تاریخ میں لوگ سینہ تان کر فخر کریں اور کہہ سکیں کہ بے شک وہ جموں وکشمیر کے لوگوں کی خیریت، فلاح اور ترقی کیلئے کچھ کردکھانے کا جذبہ بھی رکھتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُس مدت کے دوران اپنی سیاست اور اپنے سیاسی مشن ہی کی آبیاری کرتے رہے اور اسی مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف رہے۔ وہ اپنے اس مخصوص سیاسی مشن کو اب اپنے منطقی انجام تک لے جانے کی جدوجہد کررہے ہیں اور وزیر اعظم تک کو بھی کسانوں کی ایجی ٹیشن کی آڑ میں مسلسل نشانہ بنارہے ہیں۔