احمد آباد//
وزیر اعظم نریندر مودی‘ نے احمد آباد کے سائنس سٹی میں ہفتہ کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے دو روزہ مرکز ریاست سائنس کانفرنس کا افتتاح کیا اور کہا ’’ آج کا نیا ہندوستان، جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان کے ساتھ ساتھ جے انوسندھان کے نعرے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ‘‘۔
اس موقع پر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ۲۱ویں صدی کے ہندوستان کی ترقی میں سائنس اس توانائی کی طرح ہے جس میں ہر ریاست میں ہر خطے کی ترقی کو تیز کرنے کی طاقت ہے ۔
وزیر اعظم کاکہنا تھا’’ آج جب ہندوستان چوتھے صنعتی انقلاب کی قیادت کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے ، ہندوستان کی سائنس اور اس شعبے سے وابستہ لوگوں کا کردار بہت اہم ہے ۔ سائنس سولیوشن کی، ایوولیوشن کی اور انوویشن کی بنیاد ہے ۔ اسی ترغیب کے ساتھ آج کا نیا ہندوستان، جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان کے ساتھ ساتھ جئے انوسندھان کی پکار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ‘‘۔
مودی نے کہا کہ اگر ہم پچھلی صدی کی ابتدائی دہائیوں کو یاد کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کس طرح تباہی اور المیہ کا دور چل رہا تھا۔’’ لیکن اس دور میں بھی خواہ مشرق ہو یا مغرب، ہر جگہ سائنسدان اپنی عظیم دریافتوں میں مصروف تھے ۔ مغرب میں آئن اسٹائن، فرمی، میکس پلانک، نیلز بوہر، ٹیسلا جیسے سائنسدان اپنے تجربات سے دنیا کو حیران کر رہے تھے ۔ اسی وقت سی وی رمن، جگدیش چندر بوس، ستیندر ناتھ بوس، میگھناد ساہا، ایس چندر شیکھر سمیت کئی سائنس دان اپنی نئی دریافتیں منظر عام پر لا رہے تھے ‘‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم اپنے سائنسدانوں کی کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں تو سائنس ہمارے معاشرے کا حصہ بن جاتی ہے ، وہ ثقافت کا حصہ بن جاتی ہے ۔ اس لیے آج میری پہلی گزارش یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے سائنسدانوں کی کامیابیوں کا جم کر جشن منانا چاہیے ۔
مودی کاکہنا تھا’’ ہماری حکومت سائنس پر مبنی ترقی کے وژن کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔۲۰۱۴سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ، آج ہندوستان گلوبل انوویشن انڈیکس میں۴۶ویں نمبر پر ہے جب کہ۲۰۱۵ میں یہ۸۱نمبر پر تھا‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اس امرت دور میں ہندوستان کو تحقیق اور اختراع کا عالمی مرکز بنانے کیلئے بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرنا ہے ۔’’ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق اپنی تحقیق کو مقامی سطح تک لے جانا ہے ۔ اختراع کی حوصلہ افزائی کے لیے ، ریاستی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ سائنسی اداروں کی تعمیر اور عمل کو آسان بنانے پر توجہ دینی چاہیے ۔ ریاستوں میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اختراعی لیبارٹریز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے ۔ ریاستوں میں کئی قومی سطح کے سائنسی ادارے ہیں، قومی لیبارٹریز بھی ہیں۔ ریاستوں کو ان کی صلاحیت اور مہارت کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ ہمیں اپنے سائنس سے منسلک اداروں کو بھی سلوس کی حالت سے باہر نکالنا ہوگا۔‘‘