صدر جمہوریہ کے انتخاب کے حوالہ سے ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے رول اور کردار کے تعلق سے ووٹنگ کے طرزعمل پر عمرعبداللہ نے کچھ سوالیہ نشان لگادیئے ہیں اور اپوزیشن کے اس کردار کے تعلق سے عالمی سطح پر کچھ متشابہات کی مثال پیش کی ہے۔
حکمران اتحاد کے نامزد اُمیدوار کو نہ صرف اتحادی جماعتوں کے ووٹ حاصل ہوئے بلکہ اپوزیشن کی طرف سے بھی ووٹ حاصل ہوئے، دوسرے الفاظ میں کراس ووٹنگ بھی ہوئی جس کی تفصیلات اب بتدریج سامنے آرہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ حکمران اتحاد کا نامزد اُمیدوار کثرت رائے سے صدارتی منصب پر متمکن ہوا۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔
لیکن اس تصویر کا دوسر ا رُخ بھی ہے جس کا تعلق نائب صدر کے عہدے کیلئے اپوزیشن کے ایک دھڑے کی جانب سے کانگریس سے وابستہ سابق وزیر مارگریٹ الوا کی نامزدگی سے ہے ۔ اپوزیشن کی کئی جماعتوں نے کانگریس کی نامزد اُمیدوار کی حمایت کی لیکن اس حمایت پر عین اُسی وقت اولے پڑگئے جب ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ ممتا بنرجی کے دوہرے سیاسی چہرے کا محض ایک عکس ہی نہیں بلکہ تسلسل بھی ہے۔
صدر کے عہدے کیلئے اپوزیشن کے نامزد اُمیدوار سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کی فی الوقت وابستگی ترنمول کانگریس سے ہے لیکن ممتا بنرجی نے اس تعلق سے بھی دوسری اپوزیشن پارٹیوں کا ساتھ نہ دینے کا راستہ اختیار کیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ممتا بنرجی خود کو اپوزیشن کے ساتھ بھی وابستہ کررہی ہے اور جب چاہا تو اپوزیشن کا ساتھ چھوڑ بھی دیتی ہے ۔ کیا اس انداز فکر اور رویہ کا کوئی تعلق دوہرے سیاسی چہرے سے ہے، مائی وے آر ہائی وے کی ذہنیت سے ہے، یا نظریہ بالادستی سے؟ جو کچھ بھی وجہ ہے، البتہ یہ بات واضح ہے کہ قد آور سیاستدان ہونے کے باوجود ممتا بنرجی مائی وے آر ہائی وے کے ہی مخصوص سوچ اور راستہ پر گامزن ہے۔
اپوزیشن اتحاد کو وہ اسی نگاہ اور فکر سے دیکھ رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کانگریس سے بھی اپنی پرانی دُشمنی نبھاکر اُس دُشمنی کو مضبوط کرتی جارہی ہے۔ لیکن یہ راستہ اختیار کرکے وہ اپوزیشن اتحاد میں پے درپے دراڑیں اور شگافیں ڈالتی جارہی ہیں۔اپوزیشن آنے والے ایام میں اس روش کے نتیجہ میں کوئی مثبت اور فعال رول اداکرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کا دائرہ اور اثرونفوز سکڑتا ہی رہے گا۔
ممتا بنرجی کی خواہش دراصل یہ ہے کہ اپوزیش بحیثیت مجموعی باالخصوص کانگریس کی قیادت اس کو مستقبل کے حوالہ سے وزیراعظم کے عہدے کیلئے ایک مضبوط اُمیدوار کے طور متفق ہوجائے لیکن اپوزیشن سے وابستہ کچھ جماعتیں اور قیادت کا ایک حصہ ممتا بنرجی کی اس مائی وے اور ہائی وے کی خواہش کی تکمیل کی راہ میں مانع ہیں۔
اس تمام تر منظرنامہ میں ناقدین ، تجزیہ کار ، مبصرین ، قلم کار اور دوسرے اس ایک نکتہ پر متفق نظرآرہے ہیں کہ حکمران جماعت بی جے پی ان اہم اور حساس نوعیت کے معاملات کے حوالہ سے جو فیصلے لے رہی ہے وہ جہاں اس کیلئے ’ماسٹر سٹروک‘ثابت ہورہے ہیں وہیں ردعمل میں اپوزیشن کا بھی شیرازہ اجڑے پتوں کی طرح بکھرا بکھرا اور منتشر ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس تعلق سے صدر کے عہدے کیلئے نامزد خاتون دروپدی مرمو، جس کا تعلق آدی واسی قبیلوں سے ہے اور اب مغربی بنگال کے سابق گونر کی نائب صدر کے عہدے کیلئے نامزدگی کو بی جے پی کا ناقابل تسخیر سڑوک تصور کیاجارہاہے۔ یہ ناقدئن اس بات کو بھی تسلیم کررہے ہیں کہ فی الوقت فیصلہ سازی اور اہم اور حساس نوعیت کے حامل آئینی عہدوں کیلئے شخصیات کا انتخاب نے حکمران جماعت کی قوت فیصلہ سازی اور اثرونفوز کو بھی ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔
اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ صد رکے انتخاب میں غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں نے بھی سیاسی وابستگیوں اور وفاداریوں سے بالاتر ہوکر اس کے حق میں ووٹ دیئے۔ اب نظریں نائب صدرکے عہدے کیلئے اپوزیشن اور حکومت کی نامزدگیوں کی طرف مرتکز ہورہی ہیں۔ خاص کانگریس والی ریاستوں پر۔ حکومتی اتحاد کے نامزد اُمیدوار کا تعلق راجستھان سے ہے جہاں کانگریس کی حکومت ہے۔ راجستھان کے سیاسی منظرنامے میں اس نامزدگی کو راجستھان کی عزت قرار دیاجارہاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس پارٹی سے وابستہ ممبران اس کے حق میں ووٹ دیں گے یا اپنی پارٹی کے نامزد اُمیدوار کے حق میں ؟
اسی طرح کچھ دوسری اپوزیشن ریاستوں کے تعلق سے بھی ایسے ہی کچھ سوالات ہیں۔پنجاب، چھتیس گڑھ ، اڑیسہ وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ نچوڑ یہ ہے کہ ملک میں اپوزیشن کا بتدریج صفایا ہوتاجارہاہے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی اس کی قدر تنزل اور انحطاط کے راستے پر گامزن ہے جبکہ زمینی سطح پر بھی صورتحال یہی ہے۔
اس تعلق سے یہ سوال اب سنجیدہ عوامی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہواہے کہ کیا واقعی ہندوستان ملٹی پارٹی سسٹم کے دائرہ سے آزاد ہوکر ایک پارٹی سسٹم کے دائرے میں پرورش پارہاہے اور کیا ہندوستان اپوزیشن مکت کے راستے پر تیزی سے اگرنہیں تو بتدریج اور مرحلہ وار طے کرتا جارہاہے!