واشنگٹن///
امریکی فوج نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ کیلیفورنیا کے بڑے شہر لاس اینجلس میں جاری احتجاج سے نمٹنے کے لیے 700 میرینز تعینات کیے جا رہے ہیں۔
امریکہ کی شمالی کمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق "700 میرینز کو متحرک کیا گیا ہے تاکہ وہ نیشنل گارڈز کی معاونت کریں، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر شہر میں تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ اقدام غیرقانونی ھجرت کے خلاف حکومتی پالیسیوں پر شروع ہونے والے مظاہروں کا جواب میں اٹھایا گیا ہے”۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ "وفاقی اہلکاروں اور املاک پر بڑھتے خطرات کے پیش نظر کیمپ پینڈلٹن میں تعینات 700 میرینز کو لاس اینجلس بھیجا جا رہا ہے۔ یہ فوجی اڈہ شہر کے جنوب میں دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ ان کا مقصد وفاقی عمارتوں اور اہلکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے”۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ لاس اینجلس میں جاری سکیورٹی آپریشن، جسے ٹاسک فورس 51کا نام دیا گیا ہے میں "تقریباً 2100 نیشنل گارڈز اور 700 حاضر سروس میرینز” شامل ہیں۔
بیان کے مطابق ان تمام اہلکاروں کو ہجوم کو کنٹرول کرنے، کشیدگی کم کرنے، اور طاقت کے استعمال کے اصولوں پر تربیت دی گئی ہے۔امریکی سرزمین پر حاضر سروس فوج کی تعیناتی ایک غیرمعمولی اور حساس فیصلہ تصور کیا جا رہا ہے۔
اسی ضمن میں امریکی وزارت دفاع نے بھی پیر کے روز اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید 2000 نیشنل گارڈز کی تعیناتی کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے ترجمان شون بارنیل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس” پر بتایا کہ "صدر کے حکم پر وزارت دفاع کیلیفورنیا میں مزید 2000 نیشنل گارڈز کو متحرک کر رہی ہے تاکہ وہ وفاقی امیگریشن حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کر سکیں”۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا: "ہم دیکھیں گے کہ لاس اینجلس میں میرینز کی تعیناتی کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوتی ہے۔ اگر ضرورت پیش آئی تو کیلیفورنیا میں مزید نیشنل گارڈز بھی تعینات کیے جائیں گے”۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے اختتام ہفتہ پر کہا تھا کہ میرینز اُن فورسز میں شامل ہیں جو "حکم ملتے ہی تعیناتی کے لیے تیار” ہیں۔
دوسری جانب کیلیفورنیا کے گورنر گیوِن نیوزوم نے اس فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے "ایکس” پر ایک پیغام میں لکھا کہ امریکی میرینز نے مختلف جنگوں میں جمہوریت کے دفاع کے لیے عزت کے ساتھ خدمات انجام دی ہیں۔ انہیں امریکی سرزمین پر اپنے ہی شہریوں کے خلاف تعینات نہیں کیا جانا چاہیے۔” ان کا کہنا تھا کہ "یہ رویہ امریکہ کے اصولوں کے خلاف ہے”۔
واضح رہے کہ یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ہفتے کے آغاز میں وفاقی امیگریشن حکام نے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر درجنوں افراد کو حراست میں لیا، جس کے ردعمل میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔
پیر کے روز لاس اینجلس میں صورتحال بدستور کشیدہ رہی۔ شہر کے وسطی علاقوں میں جھڑپوں کے بعد مظاہروں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اختتام ہفتہ کے دوران مظاہرین نے گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا، جس کے جواب میں سکیورٹی اہلکاروں نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
لاس اینجلس میں لاطینی امریکی نسل کی بڑی آبادی آباد ہے اور موجودہ احتجاج ان گرفتاریوں کے خلاف ہیں جن کے بارے میں امریکی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ گرفتار شدگان یا تو غیرقانونی طور پر مقیم ہیں یا جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔