واشنگٹن//
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے جمعرات کے روز عمانی ٹیلی ویژن کے ساتھ گفتگو میں واضح کیا کہ کوئی بھی ایران کو یورینیم کی افزودگی سے نہیں روک سکتا۔ انھوں نے کہا کہ ایران ایسے تمام دباؤ کو مسترد کرتا ہے اور اپنے اس حق پر قائم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی قوانین ہر ملک کو پر امن مقاصد کے لیے جوہری توانائی سے متعلق سائنسی سرگرمیوں کی اجازت دیتے ہیں۔
پزشکیان نے باور کرایا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا خواہاں نہیں، نہ ماضی میں ایسا چاہا، نہ مستقبل میں ایسا ارادہ رکھتا ہے، کیوں کہ یہ ایران کے عقیدے کے خلاف ہے۔ تاہم وہ، طبی، زرعی، صنعتی اور سائنسی مقاصد کے لیے افزودگی سے کبھی دست بردار نہیں ہو گا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ایران سفارتی حل کے لیے سنجیدہ ہے، مگر کسی بھی معاہدے میں تمام پابندیوں کے خاتمے اور یورینیم کی افزودگی کی اجازت کی شرط ہونی چاہیے۔ انھوں نے امریکہ سے کسی معاہدے کے قریب ہونے کی خبروں پر کہا کہ وہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ادھر ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر علی شمخانی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدور ایران کے جوہری ڈھانچے کو تباہ کرنے کے خواب دیکھتے رہے ہیں، مگر ایران کی سرخ لائنیں واضح ہیں اور اس کے دفاع مضبوط ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بات چیت ترقی، مفاد اور عزت کو فروغ دیتی ہے، نہ کہ دباؤ یا دست برداری کو۔
یاد رہے کہ12 اپریل سے عمان کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطح کی بات چیت جاری ہے، جس میں یورینیم کی افزودگی اہم تنازع ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ ایران پر حملہ مذاکرات کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے امریکی معائنہ کاروں کی آمد پر غور کر سکتا ہے۔
ادھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو ایران پر حملے سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے کیوں کہ یہ موجودہ مذاکراتی فضا کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
ایران اور امریکہ نے حال ہی میں روم میں مذاکرات کا پانچواں دور مکمل کیا، جس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ تاہم دونوں ملکوں نے مزید بات چیت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یورینیم کی افزودگی اب بھی بنیادی اختلافی نکتہ ہے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے 2018 میں پہلی مدتِ صدارت کے دوران ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی تھی اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں، جن میں اُن ممالک پر بھی ثانوی پابندیاں شامل تھیں جو ایرانی تیل خریدتے تھے۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے، تاہم ایران اس کی تردید کرتا ہے۔