نئی دہلی//اردو کے حق میں لڑائی لڑنے والے مہاراشٹر کے ضلع اکولہ کے گاوں پاتور کے سابق صدر بلدیہ اور کانگریس کے مقامی صدر سید برہان الدین سید نبی کو اس وقت کامیابی ملی جب ان کے ذریعہ پاتور کی بلدیہ کی عمارت پر ارود میں نام لکھنے کی پیش کی گئی قرارداد منظور ہونے کے بعد بی جے کی ایک خاتون لیڈر کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی۔ لیکن سپریم کورٹ میں اس خاتوں کو شکست ہوئی۔
اس ضمن میں یو این ائی کو تفصیلات بتانے ہویے سید برہان الدین نے کہا کہ، مہاراشٹر کے ضلع اکولہ کے گاوں پاتور میں 1956 سے قائم قدیم بلدیہ پر ارود میں ” دفتر بلدیہ ” لکھا ہوا تھا۔ جب دوبارہ 2019 میں بلدیہ کی نئی عمارت تعمیر کی گئی اور اس کا افتتاح ہوا تو بلدیہ میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ 1956 سے بلدیہ کی عمارت پر اردو میں بورڈ لگا ہوا ہے ، اس لیے اس نئی عمارت میں بھی حسب سابق مراٹھی کے ساتھ اردو میں بھی پورڈ لگایا جائے ۔لیکن بی جے پی کی گروپ لیڈر اور کی سابق کونسلر ورشا تائی سنجے بگاڑے نے اس کی مخالفت کی۔اور 2019 سے 2025 تک مختلف عدالتوں میں اردو کی مخالفت میں قانونی لڑائی لڑی،لیکن بالاخیر ملک کی سپریم کورٹ میں انھیں شکست ہوئی اور سپریم کورٹ نے ان کی درخواست اور دلائل کو ناقابل قبول قرار دے کر رد کردیا۔ سپریم کورٹ کے فاضل جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ،
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مہاراشر کے اکولہ ضلع کے پاتور شہر کی میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو برقرار رکھتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والی اردو زبان کو کسی مخصوص مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ عدالت نے مہاراشٹر کے شہر پاتور کی سابق کونسلر ورشا تائی سنجے بگاڑے کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں اردو کے استعمال کو چیلنج کیا گیا تھا۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے کہا کہ آئین کے تحت اردو اور مراٹھی دونوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے ، اور صرف مراٹھی زبان کے استعمال کا دعویٰ ناقابل قبول ہے ۔
عدالت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی ہے ، اسے ایک مخصوص مذہب، یعنی مسلمانوں سے جوڑا جا رہا ہے ، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے ۔ عدالت نے کہا کہ استعماری طاقتوں نے ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی، جس سے دونوں زبانوں کے درمیان فرق پیدا ہوا اور ایک فطری امتزاج میں رخنہ ڈالا گیا۔
عدالت نے کہا کہ ‘‘یہ وقت اردو زبان کے عروج و زوال پر تفصیلی بحث کرنے کا نہیں ہے ، لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہندی اور اردو حلقے میں جب ان زبانوں کو خالص بنانے کی ذہنیت پیدا ہوئی تو ہندی زیادہ سنسکرت زدہ اور اردو زیادہ فارسی زدہ ہو گئی۔’’
عدالت نے مزید کہا کہ نوآبادیاتی طاقتوں نے ان دونوں زبانوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے تفریق کو ہوا دی۔ نتیجتاً ہندی کو ہندوؤں کی زبان اور اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا، جو حقیقت، تنوع میں اتحاد اور عالمی بھائی چارے جیسے نظریات کے خلاف ہے ۔ عدالت نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اردو کی جڑیں اسی سرزمین میں پیوستہ ہیں اور اسے کسی مخصوص مذہب سے جوڑنا قابل افسوس انحراف ہے ۔
عدالت نے واضح کیا کہ اردو کے خلاف تعصب ایک غلط فہمی پر مبنی ہے کہ اردو زبان ہندوستانی نہیں ہے ، جب کہ درحقیقت اردو بھی ہندی اور مراٹھی کی طرح ایک ہند آریائی زبان ہے جو اسی سرزمین میں پیدا ہوئی، نشونما اور فروغ پائی۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ اردو مختلف ثقافتی نظریات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی باہمی ضرورت کے باعث پروان چڑھی اور بعد ازاں اس نے ایک خوبصورت شکل اختیار کر لی، یہاں تک کہ اردو کئی معروف شاعروں کی پسندیدہ زبان بنی۔
درخواست گزار بگاڑے نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ اردو کا استعمال مہاراشٹر لوکل اتھارٹیز (سرکاری زبانوں) ایکٹ 2022 کے تحت جائز نہیں ہے ، تاہم عدالت نے اس دعوے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ مراٹھی کے علاوہ اردو کے استعمال پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے اور درخواست گزار کی عرضی زبان اور قانون کی غلط فہمی پر مبنی تھی۔
عدالت نے واضح الفاظ میں کہا، ‘‘2022 کے ایکٹ یا کسی بھی قانون کے تحت اردو زبان کے استعمال پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے ۔ مراٹھی اور اردو دونوں ہی آئین ہند کے شیڈول VIII کے تحت مساوی درجے کی زبانیں ہیں۔’’