جموں//
جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر اور ہندواڑہ کے ایم ایل اے سجاد لون نے حالیہ پیش کیے گئے جموں کشمیر کے بجٹ پر سخت تنقید کی اور اسے ایک سیاسی حربہ قرار دیا ہے ۔
اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ، سجاد لون نے کہا کہ بجٹ سازی ایک پیچیدہ اور حکمتِ عملی پر مبنی عمل ہے جو عموماً تجربہ کار افسران کی نگرانی میں ہوتا ہے ، مگر اس بجٹ کی اقتصادی پائیداری پر شدید سوالات اٹھتے ہیں۔
سیاسی پہلووں پر تبصرہ کرتے ہوئے ، سجاد لون نے کہا کہ جب میں اس بجٹ کو سیاسی تناظر میں پرکھتا ہوں، تو یہ ’نیا کشمیر‘ کے اسی بیانیے کی گونج معلوم ہوتا ہے جسے وزیر اعظم مودی اور بی جے پی نے۵؍اگست۲۰۱۹کے بعد سے جارحانہ طور پر فروغ دیا ہے ۔
لون نے حکومت کے طرزِ عمل میں تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ اسکیمیں اور پالیسیاں ہیں جن پر ماضی میں تنقید کی گئی تھی لیکن اب انہیں انقلابی قرار دیا جا رہا ہے ۔ جن چیزوں کو پچھلے پانچ سالوں میں مسترد کیا گیا تھا، آج انہیں سراہا جا رہا ہے ۔
پی سی صدر نے کہاکہ این سی اور بی جے پی، دونوں وزیر اعظم مودی کی تعریف میں سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں، جس سے یہ سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ کون زیادہ پرجوش حمایت کر رہا ہے ۔
ماضی کے وعدوں کی ناکامی کو اجاگر کرنے کے لیے ، سجاد لون نے اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کا انتخابی منشور پیش کیا اور اس کے وعدے بلند آواز میں پڑھے ، جن میں۲۰۰یونٹ بجلی مفت، روزگار کے مواقع اور سماجی فلاح و بہبود کی اسکیمیں شامل تھیں، مگر یہ سب ابھی تک پورے نہیں ہوئے ۔
ہندواڑہ کے ممبر اسمبلی نے کہا کہ اگر میں اس منشور کو بطور ثبوت پیش کروں، جیسا کہ عدالت میں کیا جاتا ہے ، تو یہ واضح ہو جائے گا کہ مفت بجلی کے یونٹس کو صرف اے اے وائی (انتودیہ انا یوجنا) مستفیدین تک محدود کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، بلکہ یہ وعدہ بلاشرط تھا۔
مالیاتی تجزیے کی بنیاد پر اپنی دلیل کو مضبوط کرتے ہوئے لون نے ان وعدوں کو پورا کرنے کیلئے درکار بھاری اخراجات کا ذکر کیا۔
لون نے کہا کہ حکمران جماعت کے وعدے پورے کرنے کیلئے صرف ایک لاکھ نوکریوں پر۳ہزارکروڑ روپے ‘یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی مستقلی کیلئے ۲۲۰۰کروڑ‘ہر گھر کو۱۲گیس سلنڈر فراہم کرنے کیلئے۷۶۰ کروڑ اور ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ کے نفاذ کیلئے ایک ہزار کروڑ درکار ہوں گے ۔
دیگر اخراجات شامل کرتے ہوئے ، انہوں نے کہا کہ مجموعی لاگت سالانہ۱۲۰۰۰کروڑ روپے اور پانچ سال میں۶۰ہزارکروڑ روپے تک پہنچ جائے گی۔ مزید یہ کہ بجٹ میں بجلی کے بلوں کی یکمشت ادائیگی، کسانوں کے قرضوں پر سبسڈی، تحفظاتی پارکس کا قیام، دواوں کے درختوں کی شجرکاری اور چھ ’ڈریم ڈیسٹینیشنز‘بنانے کے اعلانات بھی شامل ہیں، جس سے یہ لاگت تقریباً ۶۵ہزارکروڑ تک پہنچ جاتی ہے ۔
لون نے کہا کہ میرا سوال بہت واضح ہے ’’اس کیلئے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے ؟ میں چیلنج کرتا ہوں کہ اس کے معاشی جواز کو ثابت کریں‘‘۔
لون نے بجٹ میں سرمائے کے اخراجات کے اعداد و شمار پر سوال اٹھاتے ہوئے تضادات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ۲۶۔۲۰۲۵کیلئے سرمائے کے اخراجات کا تخمینہ۳۲ہزارکروڑ ہے‘ جبکہ۲۵۔۲۰۲۴کیلئے یہ۳۶ہزارکروڑ تھا، جو بعد میں گھٹ کر۳۲ہزارکروڑ کر دیا گیا۔
پی سی صدر نے کہاکہ اگر نظر ِ ثانی شدہ تخمینہ ابتدائی تخمینے سے کم ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے پاس زیادہ اخراجات سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔’’ اگر مجموعی سطح پر اخراجات کم ہو رہے ہیں، تو یہ شعبہ جاتی سطح پر کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ یہ اعداد و شمار آپس میں میل نہیں کھاتے ‘‘۔
آمدنی کے ذرائع پر بات کرتے ہوئے لون نے اثاثہ جات کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مونیٹائزیشن پر تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اثاثہ جات کی مونیٹائزیشن کی شرح۲۵۔۲۴میں ایک فیصدسے بڑھا کر ۷فیصدکر دی گئی ہے ۔ کون سے اثاثے بیچے جا رہے ہیں؟ یہ ایوان جاننے کا حق رکھتا ہے ، کیونکہ بجٹ کا۷فیصدایک بہت بڑی رقم ہے ۔
ہندواڑہ کے ممبر اسمبلی نے مزید کہا کہ ایک فیصد ٹیکس میں اضافے سے عام شہریوں پر ایک ہزارکروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، اور اس کا سب سے زیادہ اثر نچلی ۳۰فیصد آبادی پر پڑے گا۔
حکومت کی طرف سے اے اے وائی مستفیدین کو مفت بجلی فراہم کرنے کے وعدے پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے ، سجاد لون نے کہا کہ یہ مرکز ی سکیم ہے ۔