تنقید اور مخالفت کے کچھ اصول، قوائد اور ضابطے ہیں لیکن جب تنقید اور مخالفت کو’برائے‘ کی اصطلاح میں استعمال کرنے کی لت پڑ جاے تو اسی تنقید اور مخالفت کو سنجیدہ فکر حساس ،عوامی اور سیاسی حلقوں میں بھونڈا مذاق تصور کرکے کسی توجہ کا حامل نہیں سمجھا جارہا ہے۔فی الوقت جموںوکشمیر میں بعض اپوزیشن حلقوں کی جانب سے یہی کچھ ہورہاہے۔ کوئی حکومتی اقدام یا اشو تنقید اور مخالفت کا تقاضہ کررہا ہو یا نہیں لیکن ابھی ایسا کوئی اقدام اس کے بطن سے پیدا ہوا ہی چاہتا ہے کہ جٹ اور آونہ دیکھا تائو اپوزیشن کے یہ حلقے تنقید کے میزائل داغنے کی مشق کرتے نظرآرہے ہیں۔
اگلے مالی سال کے حوالہ سے بجٹ وزیراعلیٰ نے اسمبلی میںپیش کی، بجٹ تجاویز پر مختلف حلقوں کی جانب سے آرا سامنے آرہی ہے لیکن اپوزیشن کے بعض حلقوں نے اپنی روش اور مخالفانہ جذبے کی روایت برقرار رکھت ہوئے کسی نے بجٹ کو وزیراعظم کی سکیموں پر پہنایا نیا لباس قراردیا، کسی نے بی جے پی کے نیا کشمیر کے نریٹو کو سکیموں کے ناموں کو ہندی کرن کے ساتھ ایک خوبصورت لباس میں پیش کرنے کی مضحکہ خیز کوشش قرار دیا، کسی نے وزیراعلیٰ کی ۱۲۰؍ منٹ کی بجٹ تقریر کو وزیراعظم نریندرمودی کی سکیموں کا حوالہ دیتے دیتے ۱۱۸؍ منٹ صرف کئے۔ اسمبلی میں ایک یک نفری جماعت نے اس بجٹ کو وزیراعظم کے نام این سی کے محبت بھرے خط کا قسط دوئم قراردیا۔ تاہم سب کا گلہ یہی رہا کہ نیشنل کانفرنس نے الیکشن مہم کے دوران جس یقین دہانیوں کی بُنیاد پر عوام سے ووٹ حاصل کیا ان میں سے کسی ایک بھی وعدہ کو پورانہیں کیا۔
اپوزیشن کے اپنے نظریات اور طریقے ہیں، ان کے اپنے اپنے اور مخصوص سیاسی اہداف بھی ہیں، لہٰذا اُن سے کوئی بھی حکومت یہ توقع نہیں رکھ سکتی کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے یا جو بھی قدم اُٹھائے اپوزیشن آنکھیں بند کرکے ان کی تائیداور حمایت میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتی رہے۔حکومت اپنے نظریات اور ایجنڈا کے مطابق کا م کرتی ہے اور آگے بڑھتی ہے ۔ اب کی بار بھی اپوزیشن نے اگر تنقید کی تو یہ ان کا حق ہے لیکن ایک بات جو خصوصی طور سے نوٹ کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی اپوزیشن جماعت نے بجٹ کے حجم میں کروڑوں روپے کی بھاری کٹوتی کا ذرہ بھر بھی تذکرہ نہیں کیا، مرکز سے سوال نہیں کیا کہ کیوں مرکزی سرکار نے بھاری کٹوتی کی جبکہ مرکز کا مسلسل دعویٰ ہے کہ وہ جموں وکشمیر کی ترقی کو ایک نئی سمت عطا کرتی جارہی ہے۔
اپوزیشن کا یہ شکوہ بلکہ تنقید جائز ہے کہ بار بار کے مطالبات کے باوجود حکومت نے ایڈہاک ڈیلی ویجروں کی ملازمت کو مستقل کرنے کی سمت میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا، یہ ہزاروں ڈیلی ویجر سالہاسال سے اسی کسمپرسی کی حالت میں زندگئی گذار رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جموں وکشمیر میںگذشتہ کئی برسوں کے دوران جو بھی پارٹی برسراقتدار رہی اس نے اپنے منظور نظروں کو مختلف محکموں میں عارضی طور سے وابستہ کردیا وقتی طور سے ان منظور نظروں کو خوش رکھا لیکن قسمت کے مارے یہ ہزاروں لوگ دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ پارٹی نے اپنے منشور میں ان کی ملازمت کو مستقل بنانے کی بات کہی تھی لیکن کوئی قدم نہ اُٹھاکر عہد شکنی کی مرتکب ہوئی۔
بجٹ میںسماج کے کمزور طبقوں کیلئے دوسویونٹ مفت بجلی اور دس کلو راشن کی منظوری کو یہ کہکر مخالفت کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ ساری آباد ی کیوں نہیں، بجٹ کے کچھ حصوں کو ایک جموں نشین پارٹی ذات پات کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرکے سماجی تقسیم کے اپنے پسندیدہ ایجنڈا کو اس کی آڑ میں آگے بڑھانے کی کوشش پر گامزن ہوگئی ہے۔
کشمیرنشین کاروباری تنظیم ایف سی آئی کے نے بجٹ تجاویز کو مثبت اور کاروبار کے حوالہ سے ایک مضبوط قدم کے طور خیر مقدم کیا ہے وہیں جموں نشین کاروباری تنظیم باالخصوص چیمبر آف کامرس کی خاموشی معنی خیز تصور کی جارہی ہے۔البتہ جموں کے کئی ایک وکلاء کی جانب سے لاء فیکلٹی قائم کرنے اور اس کیلئے بجٹ مخصوص کرنے کے حکومت کے فیصلے کا والہانہ خیر مقدم کیاجارہاہے۔ اسی طرح خواتین کیلئے سرکاری بسوں میں مفت سفر کے فیصلے کا خیر مقدم کیاجارہاہے لیکن ایک پارٹی سے وابستہ کچھ لوگ اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر سوال کررہے ہیں کہ سرکاری ای بسیں سرینگرمیں چل رہی ہیں لیکن جموں میں نہیں،حسد ،دُشمنانہ ذہنیت اور علاقہ پرستی کی یہ حد واقعی قابل توجہ ہے جبکہ گورنر منوج سہنا نے پہلی ای سروس جموں سے ہی افتتاح کرکے متعارف کرادی تھی۔
بجٹ میں زراعت اور وابستہ شعبوں ، سیاحت ، کھیل کو د اور نئی صنعتی بستیوں کے قیام اور ان شعبوں کی ترقیات کے حوالہ سے جو کچھ بھی رکھا گیا ہے یہ انتظامیہ کے متعلقہ شعبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیانتداری اور مکمل شفافیت کے ساتھ عمل آوری کو یقینی بنائے لیکن دفتر ی گھس گھِس ، ریڈ ٹیپ ازم ، غیر شفافیت ، بدعنوان طرزعمل اور درپردہ لین دین کو اگر بدستور خاصہ بنایا جاتارہا تو یہ شعبے اُس مقصد کو حاصل نہیں کر پائینگے جن مقاصد کی تکمیل کیلئے انہیں ترجیحات میں رکھاجارہاہے۔
آبادی کو پانی کی بہمرسانی ایک مستقل مسئلہ بناہوا ہے ۔ مرکزی حکومت نے جموںوکشمیر کیلئے جل شکتی کے نام پر مخصوص سکیم مرتب کی اور کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کردیئے، لیکن یہ سکیم کچھ ذمہ داروں کے ہاتھوں اس لئے ناکام اور غیر موثر ثابت ہوئی کہ جو اس سے وابستہ تھے ان پر الزام ہے کہ انہوںنے کروڑوں روپے کے یہ فنڈز اپنی تجوریوں کی نذر کردیئے،متعلقہ سیکریٹری ؍کمشنر نے اس ملٹی کروڑ سکینڈل کا پردہ چاک کیا، اپنے طویل مگر مفصل خط میں اس سکینڈل کی تفصیلات پیش کیں، لیکن تحقیقات کے بجائے مذکورہ آئی اے ایس آفیسر کو ہی چلتا کردیا گیا۔
بجلی شعبے کے تعلق سے بجٹ میں جن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر پیش کیاگیا وہ نئی نہیں ہیں بلکہ اسی طرز کے دعویٰ اب ایک عرصہ سے متواتر کے ساتھ کئے جارہے ہیں ۔ یہ شعبہ جموںوکشمیر کے وسائل کے ناجائز استعمال اور ناجائز استحصال کے حوالہ سے کوئی نظیرنہیں رکھتے۔ بیس ہزار میگاواٹ بجلی پیداوار کی گنجائش کا تخمینہ ۱۹۸۰ء سے کیا جارہاہے، اس مدت کے دوران جو بھی نیا بجلی پروجیکٹ تعمیر کیاجاتارہا اس کی پیداوار کازائد از ۹۵ فیصد جموںوکشمیر سے باہر کیلئے مخصوص کیا جاتا رہا، یہاں کے عوام مسلسل محروم چلے آرہے ہیں الیکشن کے دوران نئے پروجیکٹوں کے حوالوں سے مفاہمت ناموں پر نظرثانی کا اعلان کیا جاتارہا لیکن اب نظرثانی کا لفظ نریٹوسے غائب ہے۔