تو صاحب اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اب تک وہی ہو رہا ہے جس کی ہمیں توقع تھی۔سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات لگا رہی ہیں۔دو تین ممبران اسمبلی تک سمٹی ‘ پی ڈی پی حکمران جماعت کو سانس لینے نہیں دے رہی ہے اور… اور سچ پو چھئے تو اس کا رول بھی یہی ہے… لیکن… لیکن مسئلہ صرف اتنا ہے کہ پی ڈی پی خود کون سی دودھ میں دھلی ہو ئی ہے ؟اگلے روز میڈم جی… میڈم محبوبہ جی نے عمرعبداللہ اور ان کی حکومت کو جموں کشمیر میں بی جے پی کا ایکس ٹنشن قرار دیا…اور اس لئے قرار دیا کیونکہ میڈم جی کے الفاظ میں این سی حکومت ۳۷۰ کے حوالے سے اب کچھ نہیں کہہ رہی ہے … اور اس کی خاموشی اصل میں ۵؍اگست ۲۰۱۹ کے بی جے پی کے فیصلوں کی توثیق ہے ۔اب صاحب یہ تو ممکن نہیں تھا اور… اور بالکل بھی نہیں تھا کہ میڈم جی کے اس وار پر حکمران جماعت کو سانپ سونگھ جاتا… ایسا ممکن نہیں تھا … اس لئے این سی نے پوری طاقت کے ساتھ پلٹ وار کرتے ہو ئے ۵؍اگست کے فیصلوں کیلئے میڈم جی اور ان کی پارٹی کو ذمہ دار قرار دیا … اور یہ کہہ کرقرار دیاکہ ۲۰۱۴ کے اسمبلی انتخابات کے بعد اس جماعت نے بی جے پی کے ساتھ جموںکشمیر میں مخلوط حکومت بنائی تھی ۔ بجٹ اجلاس طویل ہے ‘ ایک ڈیڑھ ماہ تک جا ری رہے گا… اور ہمیں یقین ہے کہ اس دوران ہمیں بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملے گا… یہ دیکھنے اور سننے کو کہ کس طرح کشمیر کی یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو ننگا کریں گی… دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ کہہ رہی ہیں… وہ سچ ہے … سچ کے سوا کچھ نہیں … ایک دوسرے کا سچ کہہ کر یہ اصل میں ایک دوسرے کو برہنہ کررہی ہیں… کشمیر کے لوگوں کے سامنے ننگا کررہی ہیں… ان لوگوں کے سامنے جنہوں نے وقت وقت پر انہیں اپنا ووٹ دیااور… اور اعتما بھی… لیکن صاحب تاریخ گواہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے لوگوں کے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی… اس کو توڑ دیا… پی ڈی پی کچھ بھی کہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ۲۰۱۴میں اس نے بی جے پی کو روکنے کے نام پر الیکشن لڑا اور پھر اسی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا…وہ اتحاد جو اس سے پہلے این سی نے کیا تھا… واجپائی کے دور میں کیا تھا… جس اتحاد نے عمر کومرکزی حکومت میں وزیر بنایا تھا … اس اتحاد کا بھی کوئی جواز نہیں تھا … اور اس لئے نہیں تھا کیونکہ بھلے وہ واجپائی کی بی جے پی تھی… لیکن اُس وقت بھی ۳۷۰ بی جے پی کے نشانے پر تھا… اس سے یہ پیچھے نہیں ہٹ گئی تھی‘بالکل بھی نہیں ہٹ گئی تھی ۔ ہے نا؟