شراب پر پابندی عائد کرنے کے مطالبات آج کے نہیں بلکہ بہت پہلے کے ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ جموںوکشمیر میں اقتدار میںآتی رہی حکومتیں پارٹی سطح پر اس کی حامی رہی ہیں لیکن حکومتی سطح پر پابندی عائد نہ کرنے کے دفاع میں طرح طرح کی دلیلیں پیش کرکے شراب کی کشید، پیداوار، فروخت اور استعمال کی سرپرستی کرکے بڑھاوا دیتی رہی ہے۔یہ کوئی دعویٰ نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے !
ایک بار پھر شراب پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیاجارہاہے۔ اس ضمن میں کچھ ممبران اسمبلی نے انفرادی سطح پر بِل جمع کرالئے ہیں اور یوں جموں وکشمیر کے سیاسی عوامی اور میڈیا حلقوں میں اس مخصوص اشو پر بحث چھڑچکی ہے۔ عوام کیا چاہتی ہے ؟ اس بارے میں ریفرنڈم کی ضرورت نہیں، البتہ یہ واضح ہے کہ لوگوں کی اکثریت شراب سمیت تمام طرح کی نشیلی ادویات اور شئے کی خریدوفروخت، استعمال وغیرہ پر مکمل پابندی کے حق میں ہیں۔ لیکن حکومت نہیںکیونکہ اس کی دلیل کچھ اور ہے، اس کا نظریہ کچھ اور ہے اور اس کی نظریں بلکہ ترجیح شراب کی خریدوفروخت اور لائسنس کے اجراء کی وساطت سے ریونیو کا زیادہ سے زیادہ حصول ہے۔
کچھ لوگ بلکہ حلقے اس اشو کو سیاسی عینک اور سیاسی مفادات کی نظروںسے دیکھتے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ چونکہ جموںوکشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ ہے لہٰذا شراب پر پابندی عائد ہونی چاہئے جبکہ کچھ مخالفت میں یہ لنگڑی دلیل پیش کرکے نامعلوم مفادات کا یہ کہکر دفاع کررہے ہیں کہ چونکہ جموں وکشمیر ایک سیاحتی خطہ ہے جس کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اس صنعت سے بلواسطہ یا بلاواسطہ روزگار حاصل ہورہاہے لہٰذا شراب پر پابندی مناسب نہیں جبکہ کچھ ایک اندھی مصلحتوں کی گھوڑیوں پر سوار کچھ عرب ممالک کا یہ کہکر حوالہ دے رہے ہیں کہ ان ممالک میںشراب نوشی پر کوئی پابندی نہیں ہے، عقل کے ان اندھوں کو کون سمجھائے کہ کسی بھی عرب ملک کی سیاست، عقیدت، طرز حکوت یا معاشرتی معیارات جموںوکشمیر کے لوگوں کے لئے معیار معاشرت قرارنہیں دیاجاسکتا ہے۔
حکومت مسلسل دعوے کررہی ہے کہ جموںوکشمیر کو نشہ مکت خطہ بنانے کی سمت میں اقدامات کا تسلسل جاری ہے۔ منشیات کے دھندوں سے جو بھی لوگ وابستہ ہیں ان کی پکڑ دھکڑ جاری ہے، جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں،بینک کھاتے منجمد کئے جارہے ہیں ، جبکہ حالیہ چند برسوں کے دوران بحیثیت مجموعی دس ہزار افراد جو دھندہ میں ملوث رہے ہیں کی گرفتاری عمل میںلائی جاچکی ہے۔ منشیات کے دھندوں سے وابستہ افراد کے خلاف اس نوعیت کی سخت گیرانہ کارروائیوں کا عوامی سطح پر والہانہ خیر مقدم کیاجارہاہے ۔ لیکن یہی حکومت جموںوکشمیر میںشراب کی دکانیں کھولنے اور شراب فروخت کرنے کی لائسنس اجراء کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ابھی چند روز قبل نئی لائسنس اجرا کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری ہوگیا ہے جس میں اور باتوں کے علاوہ مختلف چارجز کی سطحوں پر نظرثانی کی گئی ہے۔ حکومت کا شراب کی خرید وفروخت اور دیگر منشیات کے خرید وفروخت اور استعمال کے حوالہ سے یہ دوہری پالیسی باہم متصادم ہی نہیں بلکہ ناقابل فہم ہے۔
یہ بات قابل غور بھی ہے اور توجہ طلب بھی کہ اگر کشمیر بحیثیت مسلم اکثریتی علاقہ کے شراب پر پابندی کے حق میں ہے تو جموںبحیثیت غیر مسلم اکثریتی علاقہ کیا شراب پر پابندی کی مخالفت کررہا ہے۔ جواب نفی میںہے۔ جس طرح کشمیرمیں ۹۹ فیصد آبادی شراب نوشی اور خریدوفروخت پر پابندی کی خواہاں ہے اُسی طرح جموں کی آبادی بھی شراب کی کھپت او راستعمال پر پابندی چاہتی ہے ۔ اس ضمن میں نہ کسی سروے کی ضرورت ہے اور نہ ریفرنڈم کی ہے۔ دونوں معاشروں میں اس شئے کو بُرا اور بدعت سمجھا جارہا ہے۔
جن منتخبہ ارکان نے شراب نوشی پر پابندی عائد کرنے سے متعلق اپنے بِل ایوان میں پیش کئے ہیں ان میں نیشنل کانفرنس سے وابستہ ایک منتخبہ عوامی نمائندہ بھی شامل ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور سے نیشنل کانفرنس کے ترجمان جو خود بھی منتخبہ عوامی نمائندہ ہے نے شراب پر پابندی عائد کرنے کے مطالبات کی یہ کہکر مخالفت کی ہے کہ ایک سیاحتی خطہ ہونے کے ناطے پابندی عائد نہیںکی جاسکتی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے لوگوں کا روزگار متاثر ہوسکتا ہے جبکہ اپنی مخالفت کے دفاع میں کچھ عرب ممالک کا حوالہ دیا ہے جہاں بقول اس کے شراب نوشی حلال ہے۔
لیکن ترجمان کے اس مخصوص مخالفانہ بیان پر جب میرواعظ کشمیرمولوی محمدعمر فاروق نے انہیںجھاڑ پلائی، سرزنش کی تو وضاحتی بیان ہاتھ میں لے کر میدان میں نمودار ہوئے اور دعویٰ کیا کہ وہ بھی شراب پر پابندی کے حق میں ہیں۔ المیہ کہئے یا دماغی توازن کا بگاڑ، عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر جب کوئی صاحب اقتدار بن جاتاہے تو وہ نہ صرف اپنے گردوپیش کو بھول جاتا ہے بلکہ معاشرتی معیارات اور اقدار اس کیلئے کوئی اہمیت یا معنی کے حامل نہیں رہتے ۔
جمہوریت اور جمہوری طرزعمل کی ایک بڑی خامی یہ بھی کہ عوام کا منڈیٹ کسی بھی صورت میں بھاری اور حجم کے حوالہ سے ناقابل چیلنج نہیں ہونا چاہئے،کیونکہ بھاری منڈیٹ ہاتھ میں آتے ہی ذہنی اوردماغی توازن بگڑ جاتا ہے اور آمریت آہستہ آہستہ اپنے لئے جگہ بنانے میںکامیاب ہوجاتی ہے۔ اور پھرخاص کروہ صاحب جو پہلی مرتبہ منتخب ہوں یہ فرض کرلیتے ہیں یا اس خود فریبی میںمبتلا ہوجاتے ہیں کہ وہ عوام کے ہردل عزیز ہیں، اعلیٰ سیاسی قد کے حامل میں اورلوگوں کے پسندیدہ ہیں، جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنی اقدارکے پانچ سال یعنی ۱۸۲۴؍ دن اسی بگڑے توازن کے راستے پر گامزن ہوکر عوام کے احساسات اور خواہشات کو کچل کر رکھتے ہیں۔ لیکن رائے دہندہ کو جب ایک دن اپنا فیصلہ سُنانے کا موقعہ ملتا ہے تو ۱۸۲۴ء دن کے حاکم کو زمین چاٹنے پر مجبور کردیتاہے۔
بہرحال اسمبلی کا بجٹ اجلاس اب چند روز کے فاصلے پر ہے ۔ شراب پر پابندی سے متعلق بِل ایوان میں پیش ہونگے تو اُس وقت اندازہ ہوجائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جارہاہے۔ حکومت کا منشا بھی واضح ہوجائے گا اور دوسرے اپوزیشن باالخصوص جموں نشین بی جے پی کے ارادے اورموقف بھی سامنے آجائیگا۔ لیکن کسی وجہ سے اگر شراب پر پابندی سے متعلق پیش کردہ مسودوں کو التواء میںرکھنے کا راستہ اختیار کیا جاتاہے یاممبران پر مشتمل کسی کمیٹی کے سپرد غور وخوض اور سفارشات مرتب کرنے کا راستہ اختیار کیاجائے گا تو سمجھ لینا چاہئے کہ نیت کسی کی بھی ٹھیک نہیں اور ان نئی مسودہ بلوں کا حشر بھی وہی ہوگا جو ماضی میں انہی جیسی بلوں کا ہو تا رہا ہے۔
۔۔۔