سرینگر//
پیپلز کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے منگل کو جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس حکومت پر ۵؍ اگست ۲۰۱۹ (جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے) کی توثیق کرنے کا الزام لگایا۔
پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون اور پی ڈی پی کے رکن اسمبلی وحید پارا نے بزنس رولز میں جموں و کشمیر کے آئین کے حوالہ جات کو حذف کرنے کی تجویز پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
پی سی کے چیئرمین اور ہندواڑہ کے ایم ایل اے سجاد لون نے ایکس پر لکھا’’اسمبلی سکریٹریٹ کی جانب سے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس کے بارے میں تیار کردہ مسودہ تجویز کی ایوان میں۵؍اگست ۲۰۱۹کی تبدیلیوں کی سب سے واضح اور ناقابل معافی توثیق ہوگی‘‘۔
لون کاکہنا تھا ’’یہ مستقبل میں۵؍اگست کی تبدیلیوں کو قانونی چیلنج کرنے کی کسی بھی گنجائش کیلئے مؤثر طریقے سے ختم ہوجائے گا۔ اگرچہ ہم نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ کو مسترد کرتے ہوئے نئی اسمبلی کی طرف سے ایک واضح قرارداد کا خواب دیکھا تھا ، اور یہ مستقبل کے کسی بھی قانونی چیلنج میں ایک حوالہ بن جائے گا، اب ہمیں ایک جھٹکا لگا ہے‘‘۔
ہندواڑہ کے ممبر اسمبلی کامزید کہنا تھا’’ اسی اسمبلی کو مستقبل میں قانونی چیلنجوں کے امکانات کو دفن کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کی عکاسی کرنے والی موجودہ اسمبلی کو اب ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کو مسترد کرنے والے کے طور پر نہیں بلکہ حمایتی کے طور پر یاد کیا جائے گا‘‘۔
لون نے کہا’’جس اسمبلی کے بارے میں ہم نے سوچا تھا کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز ہوگی، وہ اب ۵؍ اگست کے مجرموں کی ایک بے شرم ربڑ اسٹیمپ ہے۔ حکمراں نیشنل کانفرنس کی زیر قیادت حکومت نے جان بوجھ کر ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں نیشنل کانفرنس کے۶؍ اور بی جے پی کے۲؍ارکان شامل تھے۔ کشمیر میں مقیم اپوزیشن پارٹیوں یا ایم ایل اے میں سے کوئی نہیں تھا‘‘۔
یہ کمیٹی ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کو کی گئی تمام تبدیلیوں کی توثیق کرتی ہے۔ اس مسودے کی بنیاد پر وہ جموں و کشمیر کے آئین اور مستقل رہائشیوں سے متعلق بلوں کا حوالہ بھی قواعد سے ہٹا دیتے ہیں۔ کشمیر کے عوام کی قیمت پر ایسا ظالمانہ مذاق ہے۔
پیپلز کانفرنس کے سربراہ کاکہنا تھا’’میں۵ اگست ۲۰۱۹ کی توثیق اور اسے معمول پر لانے کے لیے نیشنل کانفرنس بی جے پی کے خفیہ معاہدے کا مختصر خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ سب سے پہلے وہ سیاق و سباق تحریر کرتے ہیں۔ نیشنل کانفرنس نے ’سب بی جے پی ہیں‘ کی بحث شروع کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بی جے پی پراسرار طریقے سے ایسا برتاؤ کرتی ہے جو اس بحث کی تائید کرتی ہے۔ بحث کو تقویت ملتی ہے اور پھر انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام کسی حد تک’باقی سب بی جے پی ہیں‘ کی بات چیت سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن ایک ریٹائرڈ پرانے جنگی گھوڑے کی قیادت والی ایجنسیاں گزشتہ تین سالوں سے نیشنل کانفرنس کے ساتھ بلا تعطل رابطے میں ہیں، نیشنل کانفرنس کے حق میں ایجنسیوں کی مکمل تعمیل کو یقینی بنا رہی ہیں‘‘۔
لون نے مزید کہا’’یہ ۴۲ نشستوں کی لاٹری توثیق کے لئے ایک تحفہ ہے۔ این سی ان تمام تبدیلیوں کی ماسٹر حمایت کنندہ ہے جو دہلی لائی تھی۔ توثیق کے بدلے پرانے تحائف کو یاد رکھیں۔ ۱۹۷۵میں حکومت کا تحفہ جس میں کوئی ایم ایل اے نہیں تھا‘۱۹۵۰ سے ۱۹۷۵کے درمیان تنزلی کی حمایت کرنے کیلئے۔ ۱۹۹۶میں کشمیر میں انتخاب کی مشق کرکے اور اسے انتخابی قرار دے کر حکومت کو تھالی میں تحفہ دیا گیا۔ اس کا مقصد ریاست کی جانب سے کیے جانے والے قتل و غارت اور تشدد کی کارروائیوں کی حمایت کرنا تھا۔ اور اب ۵؍اگست ۲۰۱۹ کو کی گئی تبدیلیوں کی توثیق کیلئے۲۰۲۴ کا تحفہ۔ ایک ایسی اسمبلی کا ایم ایل اے ہونا ایک لعنت ہے جسے ۵؍ اگست کی حمایت کیلئے یاد رکھا جائے گا۔‘‘
دریں اثناء پی ڈی پی ایم ایل اے وحید پرہ نے ایکس پر ایک خبر کا اسکرین شاٹ پوسٹ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ قوانین کو۵؍ اگست۲۰۱۹ کو نافذ آئینی تبدیلیوں کے مطابق بنانے کے لئے تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے۔
پرہ نے کہا کہ جموں و کشمیر اسمبلی کے ترمیم شدہ رولز آرٹیکل ۳۷۰سے ہٹ کر۵؍اگست ۲۰۱۹کی آئینی تبدیلیوں کی توثیق کرتے ہیں۔ پیرا نے ایکس پر لکھا’’نئی صورت حال کا واضح اعتراف۔‘‘