کشمیر کا سیاسی منظرنامہ سیاسی نظریات اور عمل آوری کے حوالوں سے تضادات کا ایک ایسا مجمع ہے جس کی گہرائی نہ ناپی جاسکتی ہے اور نہ لمبائی چوڑائی ۔ اس سیاسی منظرنا مہ کو تضادات کے دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو سیاست کے دعویدار بن کے مختلف ادوار میں جلوہ گر ہوتے رہے۔ کسی نے قومی دھارے سے وابستگی کا چوغہ پہن لیا تو کسی نے علیحدگی کا عمامہ اپنے سر پر باندھ کر اختراعی خوابوں کے محل سجانے اور تعمیر کرنے کے راستے اختیار کئے ۔ لیکن اس مخصوص سیاسی منظرنامہ کا حیران کن باب اگر اسے باب کہاجائے یہ ہے کہ بادی النظرمیں کوئی کاروباری حیثیت یا ملازمت نہ ہونے کے باوجود کم وبیش ہر نظریہ اور مکتب فکر سے وابستہ سیاستدان کروڑ پتی ضرور بن گیا ہے۔
لوگوں کو اس متضاد سیاسی منظرنامہ کے ہوتے کیا ملا،کیا حاصل ہوا اور اب تک وہ کیا کچھ کھوتے گئے اس پر اگر ہر پہلو سے باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ سیاستدانوں کی توندیں تو موٹی ہوتی گئی لیکن اوسط شہری کسی نہ کسی شعبے کے تعلق سے محروم ہوتا گیا۔ لیکن اس محرومی اور اس محرومی کی بطن سے زندگی کے کم وبیش ہر شعبے کے حوالہ سے محتاجی کے باوجود وہ اپنے سامنے جلوہ گر ہوتے رہے مختلف نظریات کے حامل سیاستدانوں کی آواز پر لبیک کہتے رہے ، ان کی ہر غلط اور صحیح آواز اور نعرے پر بھروسہ کرتے گئے، آخری ستم سمجھ کر انہیں اپنا اپنا اعتماد اور منڈیٹ تفویض کرتے رہے ، ایک وقت وہ بھی آیا جب قوم کے جوانوں، مائوں، بیٹیوں، بزرگوں وغیرہ نے آنکھوں اور اپنے اپنے عقل وشعور پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اپنے ایمان اور کلمے تک کی تحریف کی، الہ کرے گا وانگن کرے گاکی لے پر سڑکوں اور کھیت کھلیانوں پر رقص کا سماں بھی باندھتے رہے، کسی نے بات بنے گی گولی سے کانظریہ اور اپنے تحفظ اقتدار کے حوالہ سے پالیسی اور اپروچ کا کلمہ پڑھا تو اُس کو فراموش کرکے لوگوںنے اُسی نعرے کی اُلٹ یا یوٹرن گولی سے نہیں بات بنے گی بولی سے پر بھی آنکھیں بند کرکے بھروسہ کیا اور اقتدار اس تلخ سچ کہ اُس مخصوص پارٹی کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے ’مجھے آپ کے منڈیٹ کی ضرورت ہے ‘ اس کے ہاتھ میں سونپ دیا۔ لیکن محض ۲، ۳؍ماہ کے اندر اندر لوگوں کو آئینہ دکھایا گیا اور پیغام دیا گیاکہ دُنیا میں اگر کوئی بے وقوف اور ناسمجھ ہے تو کشمیری جو محض دو شیرین بولوں سے اپنا کلمہ تک بدل دیتے ہیں۔
بے شک کچھ ایک سیاستدانوں نے عوام کی فلاح وبہبوداور ترقیات کے حوالہ سے کچھ ایک ناقابل فراموش کام کئے ، اقدامات اُٹھائے لیکن وہ سارے اقدامات اور کام لمحاتی اور جذباتی ہی ثابت ہوتے رہے بدلتا وقت اس حقیقت کو قدم قدم پر آشکارا کرتا رہا۔ اگر ان سیاستدانوں، جن میں سے کچھ اقتدار کی کرسی پر بھی متمکن نظر آتے رہے ، نے وقت کی نزاکتوں اور عوام کے جذبات ، آرزوں اور احساسات کی گہرائیوں کا پُر خلوص اور دیانتدارانہ احساس اپنے آپ میں جگایا یا پیدا کیا ہوتا تو ان اقدامات کو عارضی حیثیت میں رکھنے کا راستہ نہ اختیار کرتے بلکہ اگر وہ باشعور، دور اندیش اور صاحب بصیرت سیاستدان ہوتے تو ان اقدامات اور تحفظات کودائمی حیثیت کیلئے اپنی سیاست بھی دائو پر لگا دیتے لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ ہر ایک اقتدار کا متوالہ، اقتدار پرست،اقتدار کی ہوس اور مرض میںسراپا مبتلا رہا اور جب جب بھی اقتدار ہاتھ آیایا کسی اندھی سیاسی مصلحت کے اقتدار کی لیلیٰ اس کے گلے میںہار بن کے پہنائی گئی تو وہ سب کچھ بھول کر اپنے اس مانگے کے اُجالے اقتدار کے تحفظ کے راستے اور حربوں کی ہی تلاش میں سر کھپاتا رہا۔
آج آزادی کو گذرے ۷۷؍ سال بیت گئے، کسی قومی ترقیات کی سمت میں ۷۷؍ سال کی مدت کوئی کم نہیں، لیکن آج کی تاریخ میں بھی آبادی کی کثیرتعداد پینے کیلئے صاف پانی، عبورومرور کیلئے سڑک رابطہ، دریائوں کے آر پار جانے کیلئے قابل اعتبار پُل ، رہائش کیلئے بہتر سہولیات ،روزمرہ ضروریات کی تکمیل کیلئے بیرون ریاستوں سے امپورٹ پر زائد از سو فیصد کا انحصار اور محتاجی، ہسپتالوں میںطبی نگہداشت او رتشخیص کا بڑھتا فقدان، نقلی ادویات کی بھر مار،مختلف امراض میں مبتلا لوگوں کا بڑھتا حجم، پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں اور ہنرمند افراد کی بیرون ممالک کی طرف ہجرت جسے عرف عام میں’ برین ڈرین‘ کہاجارہاہے کشمیرکومعاشرتی، تعلیمی ، ترقیاتی اور کم وبیش ہر شعبے کے حوالہ سے اندر ہی اندر کھوکھلا اور غمزدہ بنارہا ہے۔
سیاسی نظریات کے تضادات کے اندھے گھوڑوں پر سوا ر کچھ سیاستدانوں نے اپنے ملازمانہ رول کو اداکرتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں جو قبرستان آباد کئے ان پر انہیں کوئی افسوس نہیں، کوئی پچھتائوا نہیں، کسی طرح کی کوئی ندامت یا شرمندگی نہیں، ۹۰ ء کی دہائی میں شروع علیحدگی پسند تحریک کے بانی ۱۹۹۲ء کے آخر تک اپنے نظریاتی جھنڈے گاڑ دینے کا اعلان کرتے رہے، جب ان سے سوال کیا جاتا کہ لوگ اس مخصوص صورتحال کے ہوتے دانے دانے کو محتاج ہورہے ہیں، انہیں راحت کی بھی ضرورت ہے تو جواب دیا جاتا کہ یہ معاملات ثانوی درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن جب آندھی آئی تو اس نے اپنے ساتھ ان سارے دعویداروں کو خس وخاشاک کی مانند اڈا کے رکھدیا۔
یہ سارا منظرنامہ بحیثیت مجموعی اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ کشمیرکا اپنے لئے کوئی نریٹو نہیں نہ سیاسی اور نہ اقتصادی اور نہ ہی معاشرتی ، بلکہ ہوا کے دوش پر کچھ فیصلے کئے جانے کی روش جڑ پکڑتی جارہی ہے اور جب احساس ہوتا ہے یا حالات کو پرکھ کردیکھا جاتا ہے کہ یہ روش ثمرآور ثابت نہیں ہورہی ہے تو کوئی دوسری سمت اختیار کی جاتی ہے ۔ نجی سطح پر یہ اعتراف موجود ہے کہ لمحاتی اور جذباتی فیصلے دیرپا ثابت نہیں ہورہے ہیں لیکن متبادل کیا ہے اس کیلئے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اور توجہ مبذول کی جاتی ہے ۔ یہ سوچ، اپروچ اور طریقہ تباہی کی طرف ہی کشمیر کو لے جارہی ہے۔
بہرحال فوری طور سے کسی تبدیلی کے آثار مطلع پر نظرنہیںآرہے ہیں کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھ میںعوام کا اعتماد ہے اور جو لوگ عوام کا اعتماد پھر سے حاصل کرنے کی آس لگائے رقصان ہیں وہ کشمیر کے سیاسی، اقتصادی ، معاشرتی اور تہذیبی محاذوں پر صریح ناکام ہوچکے ہیں بلکہ عوام سے معافیاں مانگ مانگ کر جس اعتماد کو حاصل کرلیا ہے اُس کو بھی اب اپنے اقتدار اور سیاسی مصلحتوں کے تابع بنانے کی راہ پر ہولئے ہیں جبکہ دوسرا سیاسی گروپ اپنے مُرشد کو کشمیرکا واحد سیاسی مسیحا کے طور پیش کرکے یہ دعویٰ کررہاہے کہ لوگوں کو پھر سے اس مرشد کی ضرورت ہے، حالانکہ اس کا سیاسی کیرئیر اور سیاسی سوچ کا محور ہمیشہ کچھ اور ہی رہا ہے۔