سرینگر//
ایک دہائی کے طویل عرصے کے بعد اسمبلی انتخابات منعقد ہونے ، یونین ٹریٹری کی حیثیت سے پہلی عوامی حکومت منصہ شہود پر آنے اور دیگر کئی اپنی نوعیت کی مخصوص سیاسی پیش رفتوں کے باعث سال۲۰۲۴جموںکشمیر کی سیاسی تاریخ میں منفرد حیثیت کا حامل سال قرار دیا جا رہا ہے ۔
اس سال کے پہلے حصے میں ہی جموں کشمیر کی پانچ لوک سبھا سیٹوں کے انتخابات کا بگل بجتا ہے اور جموں کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کے گوشہ وکنار میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہونے لگتی ہیں۔
جموںکشمیر میں ۱۹؍اپریل سے۲۰مئی تک پانچ مرحلوں پر محیط لوک سبھا انتخابات عمل میں لائے جاتے ہیں۔
ان انتخابات کے نتائج نے ہر کس و ناکس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جب تہاڑ جیل میں محبوس انجینئر رشید نے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر سجاد لون کو بارہمولہ لوک سبھا نشست سے لاکھوں ووٹوں کے مارجن سے ہرا دیا۔
لوک سبھا کی پانچ سیٹوں میں سے نیشنل کانفرنس اور بی جے پی نے دو دو سیٹیں جبکہ عوامی اتحاد پارٹی نے ایک سیٹ پر قبضہ کر دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
لوک سبھا انتخابات کی سرگرمیوں کی لہریں ابھی تھم ہی رہی تھیں کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا(ای آئی سی) نے جموں وکشمیر میں ایک دہائی کے طویل عرصے کے بعد اسمبلی انتخابات کا اعلان کر دیا جس کے ساتھ ہی جموں وکشمیر میں تمام علاقائی و قومی سیاسی جماعتوں نے الیکشن ریلیوں، جلسے جلوسوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی آزاد امید واروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ افراد نے بھی آزاد امید واروں کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کا عزم کرکے کاغذات نامزدگی دائر کر دئے ۔
ای سی آئی کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جموں وکشمیر میں تین مرحلوں پر محیط انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا گیا اور اس سال جموں وکشمیر کی اسمبلی سیٹوں کی تعداد۸۷سے بڑھ کر۹۰تھی۔
انتخابات کے تین مرحلوں کی پولنگ بالترتیب ۱۸ستمبر‘۲۵ستمبر اور یکم اکتوبر ہوئی اور الیکشن کمیشن کے مطابق جموں و کشمیر مجموعی طور پر۵۸ء۶۵فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی۔
ان انتخابات میں کل۹۰۸؍امید واروں نے اپنی قسمت آزمائی کی جن میں سے زائد از۴۰فیصد امید وار آزاد تھے ۔انتخابات کے دوران جموں کے آر ایس پورہ میں والمیکی سماج اور پاکستانی پناہ گزنیوں نے پہلی دفعہ اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔
اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان۸؍اکتوبر کو کیا گیا اور سیاسی مبصرین کی توقع کے عین برعکس جموں وکشمیر کی قدیم سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے میدان مار لیا۔
نیشنل کانفرنس نے۹۰سیٹوں میں سے۴۲ سیٹوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑدئے جبکہ بی جے پی نے ۲۹سیٹیں حاصل کیں۔کانگریس کو۶سیٹیں ملیں جبکہ ڈی پی صرف تین سیٹیں جیت سکی۔
سجاد لون کی پیپلز کانفرنس، سی پی آئی (ایم) اور جموں وکشمیر میں پہلی بار انتخابات لڑنے والی عام آدمی پارٹی کو ایک ایک سیٹ جبکہ آزاد امیداروں نے۷سیٹیں حاصل کیں۔
۲۰۱۴کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے والی پی ڈی پی کو ان انتخابات میں سخت ترین شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اس کے صرف تین ہی امید وار ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکے وہیں دوسری طرف پارلیمانی انتخابات میں دھوم مچانے والے انجینئر رشید عارضی رہائی کے باوصف اپنی شہرت کی رفتار کو بر قرار رکھنے میں ناکام ہوئے ۔
گرچہ انجینئر رشید نے اسمبلی انتخابات کے دوران خود وسیع پیمانے پر انتخابی مہم چلائی تاہم صرف ایک ہی امید وار، جو ان کے بھائی ہیں، کو رکن اسمبلی بنانے کامیاب ہوسکے ۔
۲۰۲۴میں جموں وکشمیر میں الیکشن کا جوش اس قدر گرم رہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور کانگریس لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی ودیگر بڑے لیڈروں نے یونین ٹریٹری کے مختلف علاقوں میں منعقدہ عظیم الشان انتخابی ریلیوں سے خطاب کئے ۔
۱۹۸۷سے الیکشن بائیکاٹ کرنے والی جماعت اسلامی نے بھی اسمبلی انتخابات میں اپنے افراد آزاد امید واروں کی حیثیت سے کھڑے کر دئے تاہم ان میں سے کوئی امید وار کامیاب نہیں ہوسکا۔
۱۶؍اکتوبر کو شہرہ آفاق جھیل ڈل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنوکیشن سینٹر میں حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
اس طرح وہ جموں وکشمیر کے دوسرے مگر جموں وکشمیر یونین ٹریٹری کے پہلے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنی پہلی ہی کابینہ میٹنگ میں جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کی قرار داد کو منظور کیا۔
جموںکشمیر یونین ٹریٹری کی اسمبلی کا پہلا اجلاس۴نومبر سے منعقد ہوا جس میں نیشنل کانفرنس کی طرف سے پیش کردہ جموں کشمیر کے خصوصی درجے کی بحالی کی قرار داد کوپیش کرکے منظور کیا گیا۔
گرچہ نیشنل کانفرنس و دیگر ہم خیال جماعتیں جموںکشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کے لئے ہمہ تن سرگرم عمل ہے تاہم فی الوقت اس کی بحالی کے آثار کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمر نبی نے یو این آئی اردو کو بتایا’’گرچہ ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کا چیلنج اہم ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’یونین ٹریٹری میں ہم کھل کر کام نہیں کر پا رہے ہیں ہم ریاستی درجے کی بحالی کیلئے کام کر رہے ہیں امید کہ اس کو جلد بحال کیا جائے گا‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’بجلی، پانی وغیرہ جیسے معاملے بھی ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے ان پر بھی کام ہو رہا ہے ‘‘۔
بی جے پی جموں کشمیر یونٹ کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے یو این آئی کو بتایا’’جموںکشمیر میں سال۲۰۲۴میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بڑے پیمانے پر ووٹنگ ہوئی‘‘۔
ٹھاکر نے کہا’’۱۹۹۰کی دہائی کے بعد پہلی بار پر امن طریقے سے انتخابات کا انعقاد ہوا اور لوگوں نے بغیر کسی خوف و ڈر کے ان میں حصہ لیا‘‘۔ان کا کہنا تھا’’ان انتخابات میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ کسی طرف بائیکاٹ کال کا اعلان نہیں ہوا‘‘۔
بی جے پی ترجمان نے کہا’’ہم جموں کشمیر میں زمینی سطح پر جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو نمائندگی کے زیادہ سے زیادہ مواقع نصیب ہوں‘‘۔انہوں نے کہا’’بی جے پی بنیادی سطح پر جمہوریت کا مضبوط کرنے کیلئے پر عزم ہیں‘‘۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جموں وکشمیر کی موجودہ عوامی حکومت اختیارات کے لحاظ سے کمزور ہے ۔ان کا کہنا ہے’’یونین ٹریٹری میں عوامی حکومت کمزور ہوتی ہے اس کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہوتے ہیں جتنی ایک ریاست میں حکومت کے ہوتے ہیں۔‘‘