ہمیں حکومت کی حدود کو بھی سمجھنا ہوگا کیونکہ کا حکومتی بزنس رولز ابھی واضح نہیں ہو ئے ہیں :روح اللہ
سرینگر//
سرینگر لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ آغا روح اللہ مہدی نے پیر کے روز کہا کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے طلبا وفد سے وعدہ کیا ہے کہ حکومت چھ ماہ کے اندر ریزرویشن کے مسئلہ کو حل کرے گی۔
روح اللہ نے وزیر اعلیٰ جموں کشمیر کی جانب سے دی گئی مہلت کو ’مثبت پیش رفت‘ قرار دیا۔
رکن پارلیمنٹ روح اللہ نے کہا’’میں وزیر اعلی عمر عبداللہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ریزرویشن کے مسئلہ پر طلبا کی بات سنی اور اس سنگین اور حساس مسئلے کو حل کرنے کے لئے چھ ماہ کا وقت دیا‘‘۔
این سی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کے ذریعہ طے کردہ وقت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں پورے چھ مہینے لگیں گے۔اس میں صرف دو یا تین مہینے لگ سکتے ہیں۔ چونکہ ایک مہینہ گزر چکا ہے، مجھے امید ہے کہ یہ معاملہ آنے والے پانچ مہینوں میں حل ہوجائے گا‘‘۔
ساتھ ہی روح اللہ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس کے ساتھ ہی حکومت کی حدود کو بھی سمجھنا ہوگا کیونکہ حکومتی بزنس رولز کو ابھی تک کلیئر نہیں کیا گیا ہے۔
روح اللہ نے کہا کہ جب تک کا حکومتی بزنس رولز کو کلیئر نہیں کیا جاتا، تب تک چیزوں کو شکل دینے میں وقت لگے گا۔ ’’مجھے امید ہے کہ آنے والے ایک سے دو ماہ میں غور و خوض کیا جائیگا اور اس کے مطابق چیزوں کو صاف کیا جائے گا، تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ کون سا موضوع لیفٹیننٹ گورنر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور کون سا وزیر اعلی سے متعلق ہے۔
این سی لیڈر نے کہا کہ اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تو ہم لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے بھی رابطہ کریں گے۔
وزیرا علیٰ کے ساتھ طلبا کمیٹی کی ملاقات کے دوران آغا روح اللہ مہدی لگاتار دھرنے پر بیٹھیں رہے اور جب طلبا عمر عبداللہ کی سرکاری رہائش گاہ سے باہر آئے تو انہوں نے میٹنگ کو کامیاب قرار دیا تو ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ مہدی نے بھی اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اس سے پہلے روح اللہ مہدی نے کہا کہ آبادی کے تناسب کے مطابق ریزرویشن کوٹہ کو معقول بنانے کو یقینی بنایا جانا چاہئے اور وہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی تشکیل سے مطمئن نہیں ہیں لیکن طلباء کا اطمینان ان کیلئے اہم ہے۔
آغا روح اللہ نے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریزرویشن پالیسی میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے اور اس پالیسی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یا آبادی کے تناسب کے مطابق یقینی بنایا جانا چاہیے۔
روح اللہ نے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی طلباء کو یقین دلایا ہے کہ ان کی شکایات حقیقی ہیں اور وہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
این سی رکن پارلیمان نے کہا’’میں نے طلبہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں ان کے حق میں احتجاج کروں گا اور آج ہم یہاں ان کے لیے لڑنے آئے ہیں۔ ہم موافق نتائج حاصل کرنے کے لئے ہر پلیٹ فارم پر طلباء کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ حکومت نے آپ کی بات سنی ہے اور کابینہ کی ذیلی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ لیکن، میں اس سے مطمئن نہیں ہوں، اور میں صرف اس بات سے مطمئن ہوں گا کہ طالب علم مطمئن ہیں‘‘۔
روح اللہ نے کہا ’’میں کوئی افراتفری نہیں چاہتا اور نہ ہی میں یہاں اپنی پارٹی کو تقسیم کرنے آیا ہوں۔ میں انصاف حاصل کرنے کے لئے ہر دروازے پر جاؤں گا۔ لیکن اگر کوئی جموں و کشمیر میں افراتفری پھیلانا چاہتا ہے تو میں بھی ان کی مخالفت کرنے کے لئے سڑکوں پر اتروں گا‘‘۔
رکن پارلیمان نے پی ڈی پی رہنماؤں بشمول ایم ایل اے پلوامہ وحید پارا اور التجا مفتی اور عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) کا ان کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
اس سے پہلے روح اللہ نے پیر کے روز سرینگر کے گپکار علاقے میں وزیر اعلی عمر عبداللہ کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر موجودہ ریزرویشن پالیسی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔
پی ڈی پی رہنما وحید الرحمن پرہ اور التجا مفتی سمیت دیگر بھی احتجاج میں شامل ہونے کے لئے موقع پر پہنچیں۔
روح اللہ نے برن ہال اسکول سے احتجاجی مارچ شروع کیا اور جموں و کشمیر میں ریزرویشن پالیسی میں معقولیت کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے باہر پہنچے۔
پی ڈی پی کے شیخ خورشید اور وحید الرحمان پرہ سمیت اراکین اسمبلی نے بھی احتجاج میں شرکت کی۔ پی ڈی پی رہنما اور محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی بھی موقع پر پہنچ گئیں۔
قبل ازیں میر واعظ عمر فاروق نے کہا تھا کہ اگر انتظامیہ اجازت دے تو وہ بھی احتجاج میں شامل ہوں گے۔
سرینگر سے رکن پارلیمنٹ آغا روح اللہ نے اتوار کے روز لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ وزیر اعلی عمر عبداللہ کی رہائش گاہ کے باہر پرامن اور باوقار طریقے سے احتجاج میں شامل ہوں۔
جموں کشمیر میں ریزرویشن پالیسی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن، کئی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں نے احتجاج کی حمایت کی ہے۔
اس سال کے اوائل میں اسمبلی انتخابات سے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت والی انتظامیہ کی جانب سے متعارف کرائی گئی پالیسی میں جنرل کیٹیگری کو گھٹا کر۴۰ فیصد کر دیا گیا تھا، جو آبادی کی اکثریت ہے، اور ریزرو کیٹیگریز کے لیے ریزرویشن بڑھا کر۶۰ فیصد کر دیا گیا تھا۔