عمومی تاثر یہ ہے کہ آر ایس ایس فی الوقت حکمران جماعت بی جے پی کی آئیڈیالوجی ماں ہے۔ کچھ لوگ اس رتبے کے بارے میں حتمی رائے رکھتے ہیں البتہ کچھ حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی اپنی اس ’ماں‘ سے اقتدار کی مصلحتوں کے پیش نظر کافی دو ر ہوچکی ہے اگر چہ دونوں کے درمیان قربت اور دوری کے تعلق سے کوئی فریق یعنی نہ ماں اور نہ بیٹا تردید یا تصدیق کرتانظرآرہا ہے۔
لیکن یہ ضرور ہے کہ گاہے گاہے آر ایس ایس کا سربراہ موہن بھاگوت اور کچھ دوسرے اعلیٰ عہدیدار اشاروں، کنایوں میں بات ضرور کرتے ہیں، اگر چہ وہ اشارے اور کنایئے زیادہ واضح نہیں ہوتے کیونکہ ان کے اردگرد ابہامات کی تہہ در تہہ چڑھے یا چڑھائے جاتے ہیں لیکن جو جانتے ہیں باالخصوص وہ جو ان دونوں کی نفسیات، مزاج، کام کرنے کا طریقہ کار ،اندازفکر اور آئیڈیالوجی پر گہری نگاہ رکھتے ہیں وہ ان اشاروں اور کنایوں کو اپنی فہم کے مطابق زبان دیتے رہتے ہیں۔
بہرحال یہ بحث طویل ہے اور اس کو طول دینے یا ان کے حوالہ سے مختلف پہلوئوں پر مغز ماری سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ فطرت یہ بتاتی ہے کہ ماں اور بیٹے کے درمیان چاہئے کتنے ہی ٹکرائو اور اختلافات ہوں ان کارشتہ اٹوٹ ہے، ٹوٹ نہیں سکتا۔ البتہ اختلافات کچھ معاملات کے حوالہ سے اگر چہ واضح نہیں لیکن انکا ر کی بھی گنجائش نہیں۔ کچھ عرصہ سے ملک کے طول وارض میں مسجد اور مندر کے نام پر ملک کے دو اہم فرقوں کے درمیان ’فساد‘ چل رہاہے اورجس فساد میں اب کچھ ہفتوں سے زیادہ ہی شدت آچکی ہے بحیثیت حکمران جماعت بی جے پی اُس بارے میں خاموش ہے۔ لوگ جن کا تعلق مختلف ہندوتوا جماعتوں سے ہے عدالتوں سے رجوع کرکے مساجد کا سروے کرانے کی درخواستیں ان دعوئوں کے ساتھ پیش کررہی ہیں کہ ان مساجد کی تعمیر گذرے زمانوں میںمندروں کو توڑ کر کی گئی ہے۔ عدالتیں بھی ان درخواست گذاروں کی سرپرستی کرنے میں پیش پیش ہیں۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس چندر چوڑ نے ایسے ہی ایک پٹیشن پر رولنگ دیتے ہوئے اس فساد کا فلڈگیٹ کھول دیا۔ بہرحال اب سپریم کورٹ نے فی الحال ان معاملات پر روک لگادی ہے ۔
اس بڑھتے سیلاب جو ملک کے طول وارض میں بڑی تیزی سے اُمڈ تا جارہا ہے کے سنگین مضمرات کو غالباً محسوس کرتے ہوئے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے تند وتیز لہجہ میں ایک بیان جاری کردیا ہے جس میں اور باتوں کے علاوہ انہوںنے کہا کہ’’ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ عنصر یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ وہ ایسے معاملات اُٹھاکر ہندئوں کے لیڈر بن جائیں گے‘‘۔ انہوںنے آبادی کے مختلف فرقوں کے درمیان آپسی ہم آہنگی کی ضرورت پر یہ کہکر زور دیا ہے کہ تاکہ دُنیا پر یہ واضح ہوسکے کہ ہم یگانگت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔’’ہم ایک عرصہ سے مل جل کر رہتے آرہے ہیں ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ہم آہنگی کو دُنیا پر واضح کریں تو اس کے لئے لازم ہے کہ ہمیں ایک ماڈل تیار کرنا پڑے گا۔ رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگ محسوس کررہے ہیں کہ ایسے معاملات (مسجد ؍مندر) کو اُٹھا کروہ ہندئوں کے لیڈر بن سکتے ہیں، تو یہ ناقابل قبول ہے‘‘۔ آر ایس ایس سربراہ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ یہ فساد ہر روز پیدا کیا جارہا ہے ، اسے کیسے جاری رہنے دیاجائے، ہندوستان کو ضرورت ہے کہ وہ دُنیا کو بتادے کہ ہم مل جل کر رہ سکتے ہیں۔
موہن بھاگوت کے اس دوٹوک بیان پر فی الوقت تک کسی بڑی تنظیم یا ان تنظیموں کی شکمی شریک تنظیموں جنہیں عرف عام میں فرنج اکائیوں کے طور شناخت حاصل ہے لیکن حقیقی معنوں میں یہ شکمی تنظیمیں نہیں بلکہ ایک مخصوص نظریہ اور منصوبہ کے تحت انہیں وجود بھی بخشا جاتا رہا ہے اور ان کی سرپرستی بھی کی جاتی رہی ہے تاکہ فسادی ایجنڈا زندہ رہے ۔
بھاگوت کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، تقریباًکچھ ماہ پہلے انہوںنے اسی اشو کو کچھ دوسرے انداز میں پیش کرکے ملوث افرادا ور تنظیموں کو مشورہ دیا تھا کہ ہم ہر مسجد کو یہ کہہ کر نشانہ بناکر دعویٰ نہیں کرسکتے کہ اسے مندر توڑ کر تعمیر کیا گیا ہے۔ لیکن اُس بیان کے باوجود مسجد مندر کا معاملہ ملک کے عوام کو درپیش روزی روٹی، روزگار ، مہنگائی، برین ڈرین، پانی سڑک ، بجلی ، رسل ورسائل اور دوسرے سبھی معاملات پر سبقت حاصل کرتا جارہا ہے۔ اُترپردیش اس معاملے میں قیادت کا رول اداکرتا نظرآرہا ہے۔
یہ معاملات چونکہ طول پکڑتے جارہے ہیں تو سوشل میڈیا بھی خاموش نہیں، لبرل حلقے اس مخصوص میڈیم کا سہارا لے کر یہ دعویٰ پیش کررہے ہیں کہ سروے اگر کرانی ہی ہے تو مسجد کے نیچے چند فٹ گہرائی تک ہی کیوں؟اس گہرائی کو مزید گہرائی تک کیوںنہیں لے جایاجاسکتا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان کے نیچے اصل میں کتنے بودھ اور جین مندر اور عبادت گاہیں ہیں جنہیں منہدم کرکے مندر تعمیر کئے جاتے رہے اور وقت بدلتے مندروں کو توڑ کر مساجد کی تعمیرات کا دور چل پڑا۔ موہن بھاگوت کے ردعمل کے پیچھے بادی النظرمیں وہ ردعمل بھی ہوسکتا ہے جو دُنیا کے مختلف اقوام اور ممالک کی طرف سے ملک میں اقلیتوں کے حوالہ سے مختلف سروے اور تجزیاتی رپورٹوں میں جن کی تصویر کشی کی جاتی رہی ہے۔ اگر چہ حکومت اس نوعیت کی رپورٹوں اور ردعمل کومختلف تاویلات کا جامہ پہنا کر مسترد کرتی رہتی ہے اور بحیثیت مجموعی ایسے کسی ردعمل کو ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت بھی قرار دیتی ہے لیکن زمینی حقیقت چھپائی نہیں جاسکتی ۔
بہرکیف آر ایس ایس سربراہ کے تازہ ترین بیان سے ملوث عنصر اور فرنج حیثیت کی حامل جماعتیں اپنے قدم روک لیتی ہیں، اپنے فسادی اور فرقہ پرست ایجنڈا سے دستبردار ہوتی ہیں یا فساد اور ایجنڈا کو جاری اور برقرار رکھنے کیلئے کوئی اور طریقہ کار اور ہتھکنڈہ ہاتھ میں لیتی ہیں اس کا پتہ تو آنے والے وقت میں ہی چل سکتا ہے تاہم موہن بھاگوت نے ناپسندیدگی کا جو بگل بچا دیا ہے اس سے یقیناً ملک کی اقلیتوں باالخصوص ملک کی دوسری بڑی اکثریت قدرے راحت اور سکون ضرورمحسوس کرے گی، لیکن ان کے اس اطمینان کو معنویت ، اہمیت اور قبولیت اور سب سے بڑھ کر اعتباریت عطاکرنے کیلئے ضروری ہے کہ موہن بھاگوت اپنی اُس تنظیم کو میدان میںجھونک دے جو مسلمانوں کے نام پر آر ایس ایس سے اپنی وابستگی کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن مسلمانوں کے حوالہ معاشرتی ، مذہبی ،تہذیبی اور لسانی معاملات کو نہ ایڈریس کرتی ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک بھی اشو کے تعلق سے سنجیدہ نظرآرہی ہے۔
۔۔۔۔