سرینگر//
امرانتھس جس کو مقامی زبان میں’موول‘کے نام سے جانا جاتا ہے ، آمدنی کا بہتر اور موثر ذریعہ ہونے کی وجہ سے وادی کشمیر کے کسانوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے ۔
یہ پھول عرصہ دراز سے کشمیری کھانوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اور اس کو قدرتی کھانے کے رنگ اور ذائقے کے ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
محکمہ زراعت کے ریکارڈ کے مطابق خشک موول روایتی طور پر کشمیری دعوتوں میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے اور۲۰۲۳میں امریکہ کو۱۲۰کلوگرام موول برآمد کی گئی تھی۔
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے اٹیکو بانجیل سے تعلق رکھنے والا شبیر احمد کھانڈے یہ پھول اگانے والے کاشتکاروں میں سے ایک سرکردہ کاشتکار ہیں اور گذشتہ پانچ برسوں سے اس کی کاشتکاری کر رہے ہیں۔
محکمہ زراعت نے اٹیکو بانجیل کو ایک ’نامیاتی گاؤں‘قرار دیا ہے اور تقریباً سو کسانوں کو مختلف پروجیکٹوں کے لیے منتخب کیا ہے اور انہیں ان کے کھیتوں میں جانچ کے لیے امرانتھس کے پودے فراہم کیے ہیں۔
شبیر کھانڈے نے یو این آئی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا’’محکمہ زراعت نے مجھے امرانتھس کے پودے فراہم کئے پہلے میں نے ان پودوں کو ایک کنال اراضی پر لگا دیا اور وقت گذرنے کے ساتھ یہ پودے اس طرح اگ گئے کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے اور ان سے جو کمائی مجھے حاصل ہوئی اس نے علاقے کے کاشتکاروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا‘‘۔
کھانڈے نے کہا’’بعد میں، میں نے اس سوچ کے ساتھ اسے تین کنال اراضی تک پھیلانے کا فیصلہ کیا کہ اچھا فائدہ نہ ملنے کے باوجود بھی میں اسے اپنے کاروبار کے لیے مقامی مارکیٹ میں فروغ دوں گا‘‘۔
کاشتکار کا کہنا تھا’’اس فصل کی کٹائی ماہ ستمبر میں ہوتی ہے اور میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا جب محکمے زراعت نے میری فصل اچھے نرخوں پر خرید ا‘‘۔
محکمہ زراعت کی کھانڈے جیسے مقامی کاشتکاروں کو بین الاقوامی سطح کے بازاروں کے ساتھ جوڑنے کی کاوشیں ثمر آور ثابت ہوئیں اور ان کاوشوں کے نتیجے میں سال۲۰۲۱میں سری نگر میں منعقدہ ایک نمائش کے دوران دوبئی کے ایک خریدار نے۵۰کلو موول خریدی۔
علاوہ ازایں محکمہ زراعت نے کشمیری’موول ‘کو عالمی منڈیوں سے جوڑتے ہوئے امریکہ اور دوبئی جیسے ممالک کو برآمدات میں سہولت فراہم کی ہے ۔
کھانڈے کی کامیابی سے ہمسایہ گائوں کے کئی کاشتکاروں کو ترغیب اور تحریک ملی ہے جو اس امرانتھس کی کاشتکاری کیلئے کم محنت کے باوجود زیادہ آمدنی سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔
وہ اب مقامی کاشتکاروں کو موول کے پودے فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اراضی کے چھوٹے ٹکڑوں پر ان کو لگا کر آمدنی حاصل کر سکیں۔
کھانڈے کا کہنا ہے’’اس فصل کو نسبتاً کم دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کاشتکاروں کے لیے ایک مثالی موقع پیش کرتا ہے جو اپنے زرعی پورٹ فولیو کو متنوع بنانا چاہتے ہیں اور مقامی اور بین الاقوامی دونوں منڈیوں میں منفرد، قدرتی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں‘‘۔
موول کے کئی طبی فوائد بھی ہیں ۔اس کا رنگ اکثر جڑی بوٹیوں والی چائے بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اینٹی آکسیڈینٹ مواد اور صحت کے لیے مفید ہے ۔مزید برآں اس پھول کا رنگ ایک سال تک برقرار رہتا ہے بشرطیکہ اس کو مناسب طریقے سے محفوظ کیا جائے ۔