ملک کی سپریم کورٹ نے یوم آئین سے ایک دن پہلے فیصلہ سنایا … یہ فیصلہ سنایا کہ ملک … ملک ہندوستان سکیولر ہی رہے گا اور… اور ملک کے آئین کے دیباچے میں درج لفظ ’سکیولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ کو حذف نہیں کیا جائیگا… بالکل بھی نہیں کیا جائیگا … عدالت نے البتہ ساتھ ہی کہا کہ یہ کام حکومت وقت کا ہے… اس پر منحصر ہے کہ وہ سکیولر لفظ کے کیا معنیٰ اخذ کرتی ہے … یوم آئین سے ایک دن قبل سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک کے اُن لوگوں کیلئے کسی بڑے تحفے سے کم نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے جو چاہتے ہیں کہ ملک سکیولر رہی رہے… حقیقی معنوں میں سکیولر رہے… یعنی ملک کے لوگ … بلا لحاظ رنگ و نسل‘ مذہب و ملت ‘زبان و تہذیب کندھے سے کندھے ملا کر ملک کو آگے لے جائیں … اور ان سب کو وہ تمام حقوق بغیر کسی تفریق کے‘ بغیر کسی امتیاز کے مہیا ہوں‘ انہیں دستیاب ہوں‘جو انہیں آئین نے تفویض کئے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے…ان کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوںمیں ہیں جو سچ میں ایسا چاہتے ہیں… لیکن … لیکن کیا کیجئے گا کہ کچھ کو یہ سب برداشت نہیں ہو رہاہے… ہضم نہیں ہو رہا ہے … وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ملک کا یہ کردار … سکیولر کردار برقرار رہے … اس گلشن میں کھلے رنگ برنگے پھول گلشن کو ایک ساتھ مہکائیں … اس کی زینت بنیں … وہ ایسا نہیں چاہتے ہیں… ان کی آنکھوں میں ملک کا سکیولر کردار کھٹکتا ہے‘ اس لئے وہ کسی نہ کسی طرح اسے نشانہ بنانا چاہتے ہیں… کبھی عدالتوں سے رجوع کر کے … اور کبھی کسی اور طریقے سے ملک کے روایتی بھائی چارے اور اس کی رواداری کو نشانہ بنانے کی کوششوں کرتے رہتے ہیں … ایسے لوگ کہیں پر بھی کسی بھی ادارے میں موجود ہیں… جن کا کام سوائے اس ایک بات کے کچھ اور نہیں ہے کہ کیسے ملک کے سکیولر کردار‘ جس نے ملک کو دنیا میں ایک منفرد مقام عطا کیا ہے‘ کو نقصان پہنچایا جائے … اسے زک پہنچائی جائے … ۱۶ویں صدی میں تعمیر سنبھل مسجد پر عدالت کا رخ کرنا ‘نچلی عدالت کے فیصلے پر اسی دن سروے کرنے جانا … اور… اور بعد ازاں احتجاج‘احتجاج کے دوران تو ڑ پھوڑ ‘پتھراؤ اور پتھراؤ کے جواب میں فائرنگ اور اس فائرنگ میں ہوئیں ہلاکتیں … اور ان ہلاکتوں کو جائز ٹھہرانے کی کوششیں … بھی اس سمت میں ایک کوشش ہے ۔ ہے نا؟