ہمیں امید ہے… نہیں صاحب یقین ہے کہ اپنے گورے گورے بانکے چھورے ‘ عمرعبداللہ کی سمجھ میں اقتدار کے پہلے ایک ماہ میں یہ ایک بات سمجھ آگئی ہو گی کہ… کہ یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجئے … ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘… اور اگر عمرصاحب اس دریا میں ڈوب کے جاتے بھی ہیں یا جانا چاہیں بھی تو… تو بھی انہیں وہ ملنے کی آس نہیں لگانی چاہیے … جس کی انہیں امید ہے۔ہم جانتے تھے ‘ وہ بات جانتے تھے جس بات کو جاننے میں اپنے وزیرا علیٰ کو ایک ماہ لگ گیا یا لگا ہو گا… یہ بات کہ… کہ ان کے ہاتھ ہی بندھے ہو ئے نہیں ہیں‘ پاؤں میں بھی بیڑیاں لگیں ہوئی ہیں اور… اور سو فیصد لگیں ہو ئی ہیں… اور یہ اُس وقت تک لگیں رہیں گی جب تک نہ جموں کشمیر ریاست نہیں بن جاتی ہے… اس کا ریاستی درجہ بحال نہیں ہو تا ہے… اور ریاستی درجہ کب بحال ہو گا… جتنے منہ اتنی باتیں کہ… کہ باتوں کے ساتھ ساتھ وعدے بھی ہیں… لیکن خالی وعدے کچھ نہیں کر تے ہیں‘کچھ نہیں کر سکتے ہیں … جب تک نہ ارادے بھی ہوں … اور وعدے کرنے والوں کے ارادے ہیں یا اگر ہیں تو کیا ارادے ہیں… یہ ہم نہیں جانتے ہیں سوائے اس ایک بات کے کہ …کہ بات کشمیر کی ہو اور وعدے دہلی کے ہوں تو… تو پھر’کون جیتا ہے تیری ذلف کے سر ہونے تک‘۔یقینا ہم کوئی ایسی ویسی بات نہیں کرنا چاہتے ہیں… بالکل بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں جس سے ہمارے گورے گورے بانکے چھورے کا حوصلہ پست ہو … لیکن… لیکن اتناضرور کہنا چاہتے ہیں کہ… کہ انہیں حوصلہ رکھنا چاہئے … بلند حوصلہ رکھنا چاہیے کہ اس کی انہیں ضرورت ہے… اور اس لئے ہے کہ… کہ جہاں پر ہم کھڑے ہیں وہاں سے اگر ہمیں کچھ نظر آرہا ہے … وہاں سے اگر ہمیں کچھ دکھائی دے رہاہے تو… تو صرف یہ دکھائی دے رہاہے کہ… کہ ریاست کا درجہ بحال ہو گا… یقینا بحال ہو گا ‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے… کسی کو ہو گا لیکن… لیکن ہمیں نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… لیکن… لیکن صاحب کب ہو گا … اصل بات یہ ہے اور… اور جب ہو گا ‘ سب جان جائیں گے… لیکن آج کل اور پرسوں نہیں ہو گا… شاید برسوں میں ہو گا ۔ ہے نا؟