کشمیر کا سیاسی منظر نامہ حالیہ اسمبلی الیکشن کے بعد ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں عوام کے ہاتھوں شکست سے دو چار کچھ سیاست کار خود کوزچ محسوس کر رہے ہیں وہیں سیاسی میدان میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف تنقید برائے تنقید اور مخالفت برائے مخالفت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں وہیں ایک ماہ کی عمر کی حکومت کو چنائو منشور میں وعدوں، ضمانتوں اور دیگر اعلانات سے انحراف کر کے عوام کے اعتماد کی پیٹ میں چھرا گھونپ طریقہ کار بھی قرار دے رہے ہیں ۔
سیاسی میدان سے وابستہ جو کوئی بھی اور جس مسلک اور جس نظریاتی عقیدے سے بھی تعلق رکھتا ہے کو اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کرنے کی آئینی اور جمہوری ضمانت حاصل ہے ۔وہ اپنے سیاسی نظریات، موقف اور آئیڈیالوجی کو لے کر اپنی سیاست میں بھی آزاد ہے، کون روکتا ہے، کیونکہ سوال سیاستدان کی سیاسی بقاء اور سیاسی کیریئر کا ہے ۔لیکن جس سیاسی موقف، سیاسی نظریہ ،عوام کے مفادات اور حقوق کے حوالوں سے سیاست دانوں کے نعرے خود عوام مسترد کر چکے ہوں کیا اُس تناظر میں یہ سیاستدان کی اخلاقی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے آپ کا اپنے نظریات کا ،اپنے لب و لہجہ کا ،سیاسی میدان میں رہ کر اپنے انداز فکر اور اپنے طرز عمل کا از خود محاسبہ کرے کہ کیوں عوام نے اس کو قبول نہیں کیا۔
لیکن یہ کشمیر ہے ،یہاں زندگی کے کسی بھی شعبے پر گہرائی سے نگاہ ڈالی جائے تو مدافعت، محاسبہ ،سوال کرنے اور جواب دینے یا جواب مانگنے کی کوئی خاص روایت نہیں ما سوائے چند ایک معاملات کے۔ اس کے علاوہ کشمیر کی سوسائٹی میں آنکھ بند کر کے سیاسی کرداروں کی باتوں، نعروں اور کرتبوں سے بھی متاثر ہونے اور لبیک کہنے کی بہت ساری روایات تاریخ کا حصہ ہے البتہ کرتبوں سے متاثر ہونے یا لبیک کہنے کے طور طریقے وقت بدلتے تبدیل ہوتے رہے لیکن بنیاد وہی ہے جہاں ان کا جنم ہوا تھا۔
وادی کشمیر گزرے ۷۵؍ سالوں کے دوران بہت سارے نشیب و فراز سے ہو کر گزری ہے ،خوشحالی کا دور بھی دیکھا گیا، پُرآشوب اور نامسائد حالات بھی، خون میں لت پت کشمیر اور بستیوں کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتے بھی دیکھا گیا، ان ادوار میں کئی سیاستدان ایسے بھی ہیں جو اُن ہی حالات کے مطابق اپنی سیاسی دُکانیں چلاتے رہے آج کی تاریخ میں وہ اپنی سیاسی دکانوں پر بیٹھے ذرا مختلف سودا بیچ رہے ہیں!
کسی نے رائے شماری کا نعرہ بلند کیا، تو کسی نے اُس دور کو۲۲؍ سالہ صحرانوردی قرار دے کر اٹانومی کا تصور پیش کیا، کسی نے آزادی اور علیحدگی کی تحریکوں کی اس نعرے کے ساتھ قیادت کی کہ بس ۱۹۹۲ء کی صبح طلوع ہوتے ہی آزادی کا سورج بھی طلوع ہوگا لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو اب اُس دور کو اپنی انکھوں پر سیاہ پٹی باندھے اندھے گھوڑے کی سرپٹ دوڑ کی سواری قرار دے رہے ہیں، کسی نے کشمیر کی سیاست میں بخشی ثانی کا کردار ادا کرنے کا نعرہ بلند کیا ،ہم عصر سیاسی پارٹیوں کے کیڈر میں شگافیں ڈال کر بہت سارے پیادوں سے اپنا طواف کرایا لیکن وقت نے منہ کے بل گرا دیا،غالباً وہ بخشی دور کے عہد سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے کہ کس طرح اس دور کے پولیس آفسروں، بیوروکریٹو ںاور سیاسی محلہ اور بلاک نشین کھڈ پنچوں نے اپنی گنڈہ گردی ،کورپشن اور بدعنوانیوں کے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے لوگوں کی چادر اور چار دیواری کے تقدس اور حرمت تک کو پامال کر کے کشمیر کی عصری تاریخ میں ایک بدترین سیاہ باب کاعنوان رقم کیا۔
کشمیر کی سیاست اور سیاسی کرداروں کے حوالوں سے کس کس معاملہ کا حوالہ دیا جائے، احاطہ کیاجائے اس کے لئے ایک ضخیم کتاب درکا ر ہے۔ البتہ آج کی تاریخ میں جو کوئی بھی سیاسی میدان میںسیاستدان اپنے سیاسی دعوئوں کے ساتھ جلوہ گر ہے وہ کشمیر کی اس گذری ۷۵؍ سالہ تاریخ اور معاملات اور واقعات، سیاسی جماعتوں کے انداز فکر، طرزعمل اور کردار، ان جماعتوں سے وابستہ لیڈروں کے قول وفعل کا آج کے حالات میں کشمیراور کشمیری عوام کے وسیع تر مفادات، آپسی رواداری، یکجہتی ، مسلکوں ،عقیدوں اور سیاسی نظریوں سے بالا تر ہوکر اندازفکر اور طرزعمل اختیار کرے، کسی کو اپنا سیاسی آقا، کسی کو بھائی اور کسی کو بڑی بہن جیسے القابات کو داستان پارینہ اور گذرے کل میں تعبیر کی غلطی یا کوئی ڈرائونا خواب تصور کرکے ذہن سے نکال دیں اور صرف اور صرف کشمیر کی فکرکریں، کشمیری عوام کی ترقی، فلاح وبہبود، خوشحالی کے لئے خود کو وقف کریں۔
کشمیر کی سرزمین کو ہر دورمیں مختلف معاملات کے تعلق سے ایک تجربہ گاہ کے طور استعمال بھی کیاجاتارہا ہے اور ترقی بھی اسی حوالہ سے یقینی بنائی جاتی رہی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران بھی کشمیر کو اسی انداز اور طریقہ کار کے تحت ٹریٹ کیاجاتا رہا، کشمیرنشین سیاستدان اپنے اوپر اس بات کو لازم تصور کریں کہ وہ اب کشمیر کو تجربہ گاہ کے طور استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں گے اور ن ہی مستقبل کے حوالہ سے اس بربادی کے مزید متحمل ہوسکتے ہیں۔
کشمیرنشین سیاستدانوں کی یہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے، معاشرے کے تئیں فرائض اور خدمت خلق کے زمرے میں بھی آتا ہے اور سب سے بڑھ کر کشمیرکی سیاسی اُفق پر اب جوسیاسی، تہذیبی ، لسانی ، ثقافتی دراندازی تیزی کے ساتھ ہو رہی ہے وہ فکرمندی کا موجب بھی ہے اور باعث تشویش بھی ہے کیونکہ اگر یہ دراندازی جاری رہی تو کشمیر کا رہا سہا منفرد تشخص ،شناخت ،مخصوص ثقافت ، رواداری اور عقیدے اورمسلک کے سارے ستون ایک ایک کرکے زمین بوس ہوتے جائیں گے جبکہ دوسری طرف کشمیریوں کو عالمی سطح پر بطور دہشت گرد اور عفریت کے طور پیش کرنے کی میڈیا ہائوسز کی وساطت سے زہریلا پروپیگنڈہ کے سہارے سبقت کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
کیا کشمیرنشین سیاستدانوں کیلئے یہ گہرے غور وفکر کا مقام نہیں، بے شک ان میںسے کچھ کے کاروباری مفادات ہیں اور وہ نہیں چائیں گے کہ ان کے ان کاروباری مفادات پر کوئی آنچ آنے پائے، انہیں حق ہے کہ وہ اپنے ان مفادات کا تحفظ یقینی بنائے، لیکن یہ بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ وہ جو کوئی بھی کاروبار کررہے ہیں ان سے جو پیداوار ہورہی ہے ان کا خریدار بیرون کشمیرکوئی نہیں بلکہ صرف اور صرف کشمیر ہے۔ جب کشمیر اُس ہیت اور حیثیت میں ہی نہیں رہے گا تو ان کی بزنس بھی نہیں رہیگی۔
کشمیر کی سیاست، جو مختلف ادوارمیں رنگ بدلتی رہی نے کشمیرکے ماحولیات کو ہی نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی کشمیری عوام کو ہر سطح پر لہو لہان اور چھلنی کرکے رکھدیا ہے ۔ آپ کا دعویٰ اگر عوام کی سیاسی قیادت اور مستند نمائندوں یا ترجمانوں کا ہے تو پھر اسی فکر کو میدان لے آئو اور اپنی ساست کریں۔ اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کے بار بار کے اعتماد کو اپنے لئے تسخیر شدہ شئے نہ سمجھیں۔
۔