نئی دہلی// سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیس میں 1967 کا اپنا ایک فیصلہ پلٹتے ہوئے جمعہ کو کہا کہ کسی ادارے کو صرف اس لئے اقلیتی درجہ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ پارلیمانی قانون کے ذریعے قائم کیا گیا ہے ۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی سات رکنی آئینی بنچ نے اکثریتی ووٹ سے عزیز باشا کیس میں 1967 کے فیصلے کو خارج کردیا، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو قانون کے ذریعہ بنائے جانے کی وجہ سے اقلیتی درجہ سے محروم کرنے کا بنیاد بناتھا۔
بنچ نے کہا کہ اقلیتی ادارہ اقلیت کے ذریعے قائم کیا جا سکتا ہے ، لیکن ضروری نہیں کہ اسے اقلیتی ارکان کے زیر انتظام کیا جائے ۔
چیف جسٹس نے اپنی اور جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی طرف سے اکثریتی فیصلہ سنایا۔
تاہم جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ستیش چندر شرما نے اپنے اپنے اختلافی فیصلے سنائے ۔
اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سنانے والے جسٹس چندر چوڑ نے یہ بھی کہا کہ ادارے کا اقلیتی درجہ قانون کے ذریعہ بنائے جانے کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا۔
عدالت نے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ کسی ادارے کو صرف اس لئے اقلیتی درجہ دینے سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ وہ پارلیمانی قانون کے ذریعے قائم کیا گیا ہے ۔ عدالت نے کہا کہ ایسے قیام اور دیگر پہلوؤں سے متعلق مختلف عوامل کو مدنظر رکھا جانا چاہیے ۔
عدالت نے کہا کہ یہ ثابت کرنابھی ضروری نہیں ہے کہ اقلیتی ادارے کا انتظام ایسے اقلیتی گروپ کے پاس ہے ۔