تو صاحب قصہ یوں ہے کہ کل تک سبھی کہتے ہیں تھے کہ کشمیر میں بس الیکشن… اسمبلی الیکشن کی دیر ہے ‘ ایک بار الیکشن ہو جائے‘ حکومت… منتخبہ حکومت معرض وجود میں آجائے تو… تو ریاستی درجہ … جموں کشمیر کا ریاستی درجہ خود بخود بحال ہو جائیگا … اس میں ’اگر ‘اور نہ’ مگر‘ کا کوئی عمل دخل تھا … ہم نادان تھے‘ ہمیں بھی لگا کہ شاید ایسا ہی ہے…اور سچ میں اسمبلی الیکشن کی دیرے ہے‘ایک بار الیکشن ہوں گے تو ریاستی درجہ بحال ہو جائیگا…الیکشن ہو ئے‘ منتخبہ حکومت بھی قائم ہو ئی …کابینہ میں ریاستی درجے کی بحالی کی قرار داد بھی منظور ہوئی… اس قرار داد کو اپنے وزیر اعلیٰ‘ عمرعبداللہ دہلی بھی لے گئے… مرکزی حکومت کی قیادت سے ملاقات بھی کی… لیکن… لیکن ہم نہیں جانتے ہیں کہ ملاقات میں کیا بات ہو ئی… اگر ہم کچھ جانتے ہیں تو… تو وہ یہ ہے کہ اب ریاستی درجے کی بحالی کے ساتھ ساتھ ’اگر‘ اور ’مگر‘ جڑ گیا ہے۔پہلے نہیں تھا… اب جڑ گیا ہے… اب کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد ہی ریاستی درجے کو بحال کیا جائیگا… اب ہمیں سمجھایا جارہا ہے کہ اس میں کوئی جلد بازی نہ کی جائے‘ کوئی بیان بازی بھی نہیں کی جائے اور… اور ہاں یہ بھی کہ کسی اشتعال انگیزی سے بھی دریغ کیا جائے ۔اشتعال انگیزی سے مراد اس بات کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ… کہ این سی حکومت اسمبلی اجلا س کے دوران ریاستی درجے کی بحالی سے متعلق کوئی قرار داد پاس نہ کرے… ۳۷۰ کے بارے میں اپنا منہ نہ کھولے ۔ الیکشن سے پہلے یہ سب باتیں نہیں تھیں… دہشت گردی کے خاتمے کی کوئی شرط تھی اور… اور نہ زبان پر تالہ چڑھانے کا کوئی حکم تھا… اب ہے اور اس لئے ہے کیونکہ جموںکشمیر نے جو انتخابی نتائج سامنے لائے اس نے سارے اسکرپٹ پر پانی پھیر دیا…اور اس لئے پھیر دیا کیونکہ بی جے پی حکومت بنا سکی اور نہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ بن پائی… یہ جو ’اگر‘ اور ’مگر‘ کی ان باتیں ہو رہی ہیں… شرطیں لگ رہی ہیں ‘ یہ سب اسی کی وجہ سے لگ رہی ہیں کہ… کہ اگر بی جے پی حکومت آتی … اگر یہ کسی حکومت کا حصہ ہوتی تو… تو اب تک ریاستی درجے کی بحالی کی تاریخ بھی ہمیں مل گئی ہو تی… اور سو فیصد مل گئی ہو تی ۔ ہے نا؟