جموںوکشمیر کچھ مدت سے آگ کی لپیٹ میں ہے۔ معلوم نہیں یہ وارداتیں اتفاقی ہیں، حادثاتی ہیں یا کسی تخریب یا شر کا نتیجہ ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ حالیہ کچھ دنوں کے دوران نہ صرف کشمیر خطے بلکہ جموں خطے کے تعلق سے بھی متعدد واقعات پیش آئے۔ نہ صرف نجی املاک بلکہ جنگلات کے وسیع رقبہ جات بھی آگ کی لپیٹ میں ہیں۔کچھ حلقے ان وارداتوں کو آتشزدگی قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ آتش زنی تصور کررہے ہیں۔ سچ کیا ہے صر ف اللہ جانتا ہے کیونکہ وہ علیم وبصیر ہیں۔
گذشتہ کچھ ماہ کے دوران وادی کے مختلف علاقوں میںکئی وارداتیں رونما ہوئی، جن میں نجی املاک کے ساتھ ساتھ کچھ مقامات میں تاریخی مساجد بھی آگ کی لپیٹ میں آکر شہید ہوتی رہی۔ یہ سارے واقعات بحیثیت مجموعی تشویش ناک بھی ہیں اور تکلیف دہ بھی ہیں۔مساجد آگ کی لپیٹ میں آکر تباہ ہوجائیں لوگ عطیات اورچندہ اداکرکے ان کی سرنو تعمیر کو یقینی بناتے رہینگے البتہ نجی املاک آگ میں بھسم ہوجاتی ہے اس کے نتیجہ میں متاثرہ مکین کی عمر بھر کی عرق ریزی بھی آن واحد میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
حکومتی سطح پر ایسے معاملات سے نمٹنے اور متاثرین کی دادرسی اور بازآبادکاری کیلئے کوئی ٹھوس اور جامع پالیسی ہے اور نہ قابل عمل ورکنگ ماڈل، البتہ متاثرین کی فوری امداد اور راحت رسانی کے حوالہ سے ریلیف فنڈ سے ایک دو لاکھ روپے اور کچھ سامان فراہم کیاجاتا ہے جبکہ باز آباد کاری کی سمت میں ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کے ساتھ ہی معاملہ داخل دفتر کیا جاتا ہے۔ یہی روایت ہے اور باز آباد کاری کے تعلق سے قابل عمل ماڈل کو حرف آخر قرار اور سمجھا جارہا ہے ۔ متاثرین کی امداد کیلئے نجی سطح پر کئی ادارے بشمول دارالخیر اور کچھ این جی اوز امداد ی ہاتھ سامنے لاتے رہے ہیںلیکن ان کے بارے میںیہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اتنے وسائل نہیںکہ وہ متاثرین کی سو نہیں تو کم سے کم پچاس فیصد حد تک ہی امداد فراہم کرسکیں۔
ابھی چندگھنٹے قبل جموں نشین کشمیری پنڈت مائیگرنٹ بستی(پرکھو) میں ایک درجن کے قریب کوارٹر آگ کی واردات میں تباہ ہوگئے جس کے نتیجہ میں نصف درجن کے قریب کنبے بے گھر ہوگئے۔ اس سے قبل گذشتہ ہفتے کشتواڑ کے وڑون علاقے کی ایک رہائشی بستی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔۹۰ ؍کے قریب رہائشی مکان بشمول ایک تاریخی مسجد بھی اس واردات میںتباہ ہوگئی۔وزیراعلیٰ سمیت کئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار وں نے متاثرین کی ڈھارس بندھائی اور ہر متاثرہ کنبے کیلئے فی کس دو لاکھ کی امداد اداکی۔
متاثرین کی اکثر تعداد آگ کی اس بھیانک واردات میں اپنے عمر بھر کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھی، دو لاکھ روپے کا چیک اداکرکے حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے متاثرین کے ساتھ وفاکی اور ان کا حق اداکیا اور اب و ہ اس حکومتی ادائیگی کے بل بوتے پر اپنی اپنی باز آبادکاری کو یقینی بنائیں گے۔ یہ بدبختانہ سوچ ہے اور فلاحی ریاست کے حوالہ سے جو دعویٰ گذرے ۷۵؍ سال سے کئے جارہے ہیں یہ دعویٰ ادا کی گئی امداد کے تعلق سے ان کی نفی ہے۔
آگ کی ان وارداتوں کا سب سے پُرتشویش ، تکلیف دہ اور مالی اور ماحولیاتی اعتبار سے روح فرسا پہلو یہ ہے کہ جموںوکشمیر اپنی سرسبز دولت جسے عرف عام میں سبز سونا بھی کہا جارہا ہے مسلسل محروم ہوتا جارہا ہے۔ گذشتہ کئی روز سے ٹنل کے آر پار کئی جنگلاتی رقبے آگے کی لپیٹ میں ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کے درخت اب تک راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔جنگلوں میں لگی آگ کی ان وارداتوں پر تشویش اور افسوس اپنی جگہ لیکن آگ کی یہ وارداتیں بادی النظرمیں ہی پراسرار ہیں۔
جن جنگلوں میں آگ لگی ہوئی ہے محکمہ جنگلات کے حاکموں کے مطابق ان کے آس پاس کوئی بستی نہیں ہے، پھر آگ کیسے لگی ؟ کیا جنگلوں کو آگ میں جھونکنے کے پیچھے ان میں چھپے دہشت گرد وں کا ہاتھ ہے یا تلاشی آپریشن کے دوران جو گولی بارود استعمال ہورہا ہے آگ اُس کی پیداوار ہے۔ جو کچھ بھی ہے اور جس کسی کی کارستانی ہے نقصان جموںوکشمیر کا ہورہا ہے۔ جموںوکشمیر کے ماحولیاتی توازن میں بڑے پیمانے پر بگاڑ سرائیت کرتا جارہاہے۔جنگلی حیات خوفزدہ ہوکر آبادی کی طرف رُخ کرنے پر مجبور ہے۔ اس حوالہ سے گذشتہ چند برسوں کے دوران آبادی کی طرف پیش قدمی کرنے والے جنگلی جانوروں کی آمد، لوگوں پران کے حملے اور بعض معاملات میں انہیں پکڑنے کیلئے ان کے خلاف طاقت اور دوسرے وسائل کا استعمال بھی اب سنگین معاملات کو جنم دینے کا موجب بنتا جارہا ہے۔
جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے اور قابو پانے کی سمت میں محکمہ جنگلات بشمول وائلڈ لائف پروٹیکشن محکمہ نے اپنے سالہاسال قبل کے قیام سے لے کر ا ب تک کیوں کوئی روڈ میپ ترتیب نہیں دیا؟آگ پر قابو پانے یا مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے کلہاڑیوں، بیلچوں یا اسی طرز کے کچھ اوزار کا سہارا لیاجارہاہے۔ فاریسٹ پروٹیکشن فورس کی تشکیل کو اب کئی دہائیاں گذر گئیں لیکن یہ فورس بھی کسی کام کا نہیں ماسوائے جنگل سمگلروں کی معاونت کرنے اور جنگل دولت کو لوٹنے اور لٹوانے کا عملی کردار کے! آگ پر قابو پانے کیلئے نہ پانی کا استعمال اور نہ ہی ہوائی راستے کسی چھڑکائو کا۔
یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو واقعی جموںوکشمیر کے ہر حساس شہری کیلئے باعث تشویش اور تکلیف دہ ہے۔ باالخصوص آبادی کے ان طبقوں کیلئے جو آئے روز جنگل اراضی اور جنگل وسائل پر اپنا حق جتلاتے رہتی ہے اور اس حق کے حصول کیلئے مختلف قوانین کا بھی حوالہ دیتے رہتے ہیں۔
حکومت اور اس کی انتظامیہ کے لئے لازم ہے کہ وہ جموںوکشمیر کے وسیع ترمفادات ، وسائل کے تحفظ، جنگلوں کی بقا اور ماحولیاتی توازن کے مزید بگاڑ کو روکنے کی سمت میںہرسٹیک ہولڈر پر واضح کرے کہ وہ جنگلوں کو نقصان نہ پہنچائیں ،چاہئے معاملات کا تعلق کچھ بھی ہو ، ہر حالت میں جنگلوں کا تحفظ یقینی بنانا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ لیکن اگر اندھی سیاسی مصلحتوں کو بدستور ترجیح دی جاتی رہی تو آنے والے چند ہی برسوں میں سرسبز وادی اور جموںوکشمیر کے دوسرے خطے بنجر نظرآئیںگے ، گلیشیئر پگل کر سمندر کی نذر ہوتے جائینگے، ماحولیاتی توازن بگڑ کر نہ صرف آبادی کوقحط کا سامنا ہوگا بلکہ بڑھتے درجہ حرارت کی تاب نہ لاکر لوگ کثر ت سے سڑکوں، کھلیانوں اور میدانوں میں دم توڑتے نظرآتے رہینگے۔
۔۔۔۔