اب جبکہ جموںوکشمیر میں اسمبلی الیکشن کا تیسرا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے اور اب ۸؍اکتوبر کیلئے مقرر نتائج کا اعلان کا انتظار ہے۔ اس الیکشن کے دوران کئی غور طلب اور توجہ طلب پہلو جن میں سے کچھ پردوں کی اوٹ میں تھے بے پردہ ہوگئے ، کئی پراسرار سرگرمیوں کا بھی مشاہدہ ہوا جبکہ سیاسی نظریات ، موقفوں اور اپروچوں کے حوالوں سے بھی بہت کچھ سامنے آیا، کچھ کے حوالہ سے ابھی ابہام برابر موجود ہے جبکہ کئی ایک کردار یوٹرن لینے پر یاتو مجبور ہوتے رہے یا مصلحتاً انہوںنے اپنی سیاسی بقاء کی خاطر یوٹرن کا راستہ اختیار کرلیا۔
نتائج کیا ہوں گے اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، البتہ انتظامیہ پر اپنی پہلے سے موجود گرفت کو اور زیادہ مضبوط ومستحکم بنانے کیلئے جو دائو پیچ اختیارات کی سلبی اور تفویض کے تعلق سے کھیلے جاتے رہے ہیں وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اپنادبدبہ قائم کرنے ، لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور ایک دوسرے کو عوام، جموںوکشمیر،امن ، ترقی اور حقوق کے حوالہ سے دُشمن قرار دیئے جانے یا دُشمن کے طور پیش کرنے کا طوفان بھی برپا کیا جاتا رہا یہاں تک کہ علاقائی سطح پر ووٹروں کو یہ ذہن نشین کرایا جاتا رہا کہ اب کی بار اُنہی کی سرکار ہے اور اس طرز کی سرکار کے قیام سے ہی جموں کو بچایا جاسکتا ہے ۔ اس حوالہ سے ایک مخصوص جماعت کی جانب سے زبردست تشہری مہم بھی چلائی گئی۔
ہر پارٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ووٹروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرے اور رائے عامہ کو بھی اپنا ہم خیال بنائے، لیکن علاقہ پرستی اور بہت حد تک فرقہ پرستی کا نریٹو ان مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا نہ صرف اخلاقی اور سیاسی پستی ہے بلکہ غالباً ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کے صریح خلاف بھی ہے ۔ چنائو کمیشن نے اس علاقہ پرستی اور فرقہ پرستی سے عبارت چنائوی مہم اور نعرے کاکیوں کوئی نوٹس نہیں لی یہ واقعی باعث حیرت ہے اور سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ چنائو کمیشن کی یہ خاموشی اور بے اعتنائی جانبدرانہ بھی ہے اور بہت حد تک معاونتی بھی ہے ۔
اس امر کی بھی مسلسل اطلاعات منظرعام پر وقفے وقفے سے سامنے آتی رہی کہ کئی ایک انتخابی حلقوں میں کرنسی نوٹوں کی تقسیم بھی ہوتی رہی ہے اور شراب اور کباب کی محفلیں بھی آراستہ ہوتی رہی ہے۔ کچھ پارٹیوں اور اُمیدواروں کا الزام یا دعویٰ یہ بھی رہا ہے کہ ان سے وابستہ ورکروں اور ایجنٹوں کو حراست میں لیاجاتارہاہے اور اسطرح الیکشن ماحول کو کسی کسی خاص کیلئے مددگار بنایاجارہاہے۔ انتظامیہ کے علاوہ مخصوص آبزروروں کی جانب سے ایسے معاملات کی سختی سے تردیدی بیانات سامنے آتے رہے ہیں اور باربار یہی بات دہرائی جاتی رہی کہ صورتحال پر مکمل اور کڑی نگاہ ہے اور ایسی کوئی غلط حرکت دیکھنے میںنہیں آئی ہے۔
یہ تریدی دعوے کسی حد تک درست ہیں کیونکہ لین دین اور تقسیم کے معاملات بھری اور کھلی مجلسوں میں طے نہیں پاتے اور نہ ہی ایسے معاملات کیلئے گواہوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ خودسرکاری سطح پر یہ اعلان کیا جاتارہا کہ بھاری رقومات، شراب کی بوتلیں اور دیگر مواد ناکوں اور چیکنگ کے دوران برآمد کرکے ضبط کیا گیا جوا س بات کا ثبوت ہے کہ کچھ حلقوں کی طرف سے ووٹروں کی خریداری کیلئے سرمایہ کاری کی جاتی رہی ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ چنائو کمیشن نے کشمیر خطے کے حوالہ سے بعض اسمبلی حلقوں میں مہم کے دوران کچھ ایک سرگرمیوں اور نعرے بازی کا نوٹس لے کر وجہ بتائو نوٹس اجرا کئے ہیں لیکن جن سنگین مضمرات کے حامل اشو ز کو چناوی مہم کے دوران مختلف حلقوں کی جانب سے زبان دی جاتی رہی چنائو کمیشن نے ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کئی ایک حلقوں میں لیول پلیئنگ فیلڈ ایسی سہولیات فراہم نہیں کی گئی جبکہ اپوزیشن لیڈروں باالخصوص راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ہیلی کاپٹروں کو خرابی موسم کی آڑ میں راہداری دینے سے انکار کیاگیا۔
چنائو کمیشن پہلے سے یہ جانتا ہے کہ ۱۰؍ سال کے بعد یہ الیکشن جموںوکشمیر کے عوام کے لئے حد سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، یہ انتہائی حساسیت کے حامل ہیں اور کوئی بھی غلط قدم یا جانبدارانہ رویہ جموں وکشمیر میںایک نئے آگ کے شعلوں کو بھڑکاسکتا ہے ۔ کیونکہ الیکشن کے حوالہ سے ماضی کی تاریخ، کسی تعلق سے فخریہ نہیں سمجھی جارہی ہے جبکہ کئی ایک معاملات باالخصوص رونما شورش کو بھی بہت حد تک غیر منصفانہ اور جانبدارانہ الیکشن کاہی ردعمل سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن چنائو کمیشن نے اس حساسیت کو اپنے انداز فکر اور طرزعمل میں کوئی جگہ نہیںدی۔ آنے والے کل میں جب نتائج برآمد ہوں گے تو ان نتائج کے کچھ پہلوئوں اور حصوں کو اسی عینک سے دیکھنے اور تجزیہ کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
یہ خدشات اور سوالات مفروضوں کی بُنیاد پر بھی ظاہر ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ محض خیالی ہو اور اُن کی کوئی اصل نہ ہو لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں جو کچھ موضوع بحث ہے اس بحث وتکرار کی بُنیاد اور مرکز یہی معاملات ہیں، یہی خدشات ہیں اور یہی سوالات ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ بحیثیت مجموعی جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں وہ جمہوری مزاج اور جمہوری اپروچ بھی رکھتے ہیں لہٰذا کوئی بھی غلط قدم یا غلط سگنل وہ اپنے لئے نہ قابل قبول تصور کرتے ہیں اور نہ ہی قابل گوارا۔
اس بات یا پہلو کو سمجھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے طول وارض میں جب جب بھی الیکشن ہوئے وہ آئین اور جمہوری تقاضوں اور جمہوری مزاج کے عین مطابق ہوتے رہے، ان کے انعقاد میںکسی اندھی سیاسی مصلحت کا زرہ بھر بھی عمل دخل نہیںرہا یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول وارض میں کھبی کوئی عوامی سطح پر شورش برپا نہیں ہوئی لیکن جموں وکشمیر باالخصوص کشمیرکا الیکشن منظرنامہ ہر الیکشن کے حوالہ سے یکطرفہ جانبدارانہ اور اندھی سیاسی مصلحتوں، جو مصلحتیں دہلی کو مقدم اور عزیز رہی، کا مطیع ہی رہا۔ لوگوں کو ان کے اس جمہوری حق سے محروم رکھا جاتارہا، یہاں تک کہ اُن نام نہاد الیکشن میںکامیاب قرار دیئے جاتے رہے بعض اُمیدواروں سے جب سوال کیا جاتاکہ یہ کامیابی کیسے تو وہ عموماً یہی جواب دیتے کہ دہلی اور بخشی کی مہربانی ! اُس دورکے الیکشن کے ذمہ دار بیروکریٹوں میں سے کچھ عدم کو چلے گئے ہیںجبکہ کچھ ابھی حیات ہیں جن میں سے کچھ ایک سیاسی جماعتوں سے بھی وابستہ ہیں۔
جب حساسیت اور آئین وجمہوری عمل کی پاسداری کی بات کی جاتی ہے تو کچھ سیاسی حلقوں پر یہ ناگوار گذرتی ہے ، ماضی کے یکطرفہ اور فراڈ الیکشنوں کے حوالوں سے جو زخم لوگوں کو لگے بدقسمتی یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں ان زخموں کو نہ ملحوظ خاطر رکھا جارہا ہے اور نہ ہی ان کے بطن سے پیدا نامسائد حالات اور سنگین مضمرات سے ہی کوئی عبرت اور سبق حاصل کیاجارہاہے۔ یہی خدشات اور سوالات آج کی تاریخ میں زبان پرآرہے ہیں ۔
خدا کرے کہ یہ محض اٹکلیوں اور مفروضات سے عبارت ہو اور کشمیر میںآئین کی بالادستی اور جمہوری مزاج کی پاسداری کو تمام تر ازموں پرمقدم رکھاجائے۔