منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

یہ سب کچھ الیکشن کے نام پر

کشمیر کا سنجیدہ ووٹر بے دست اقلیت میں

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-09-24
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

ووٹنگ کے حوالہ سے انتخابات کا دوسرا مرحلہ اب سے چند گھنٹے کے فاصلے پر ہے لیکن الیکشن میدان میں جو کوئی بھی ہے، حزب اقتدار ہے یا حزب اختلاف ،کسی کے حمایتی آزاد لوگ ہیں یا اور کوئی دعویٰ تو جمہوریت کا کررہے ہیں، آئین کی بالادستی ، آئینی نظریہ اور آئینی تقدس کو عزیز اور مقدم رکھنے کی قسمیں بھی اُٹھاتی جارہی ہیں لیکن یہ سارے دعویٰ ان کے انتخابی میدان میں اب تک کے طرزعمل بیانات اور اپروچ کے تعلق سے جھوٹ کا پلندہ اور گمراہ کن ثابت ہورہے ہیں جبکہ تلخ ترین سچ یہ ہے کہ یہ الیکشن ،جس کو سرکاری و غیر سرکاری حلقے جشن جمہوریت کے طور پیش کررہے ہیں ، جمہوریت اور آئین کی بالادستی اور آئینی نظریہ کے نام پر ایک مذاق بنایاگیا ہے۔
کشمیرمیں انتخابی میدان میں سرگرم اُمیدواروں چاہئے وہ پارٹیوں کا منڈیٹ لے کر لڑرہے ہیں یا آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں نہ ترقی کی بات کررہے ہیں، نہ عوامی فلاح وبہبود کے تعلق سے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھا جارہا ہے اور نہ ہی کشمیر کی ثقافت، تہذیب، لسانیات، وسیع ترمفادات اور حقوق کا تحفظ کہیں نظرآرہا ہے البتہ اگر کچھ نظرآرہا ہے تو یہ کہ کوئی دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی کی راگنی کے الاپ میں خود کو مسیحا کے روپ میں پیش کرنے کی سعی کررہا ہے ، کوئی کمیونٹی (شیعہ)کے نام پر ووٹ مانگ رہا ہے ، کوئی مسلم سٹیٹ کی تشکیل کیلئے بحیثیت آزاد اُمیدوار لیکن اب اپنے بدلتے سیاسی نظریات کے تعلق سے ووٹ مانگ رہا ہے، کوئی نظر بندوں کو جیلوں سے رہائی دلانے کیلئے ووٹ طلب کررہا ہے ، کوئی انتشار پسند اور فرقہ پرست نظریات کی حامل جماعتوں اور ان سے وابستہ افراد کو شکست سے ہم کنار کرنے اورانہیں اقتدار سے دور رکھنے کے نام پر ووٹ چاہتا ہے تو جموں خطے میں ڈوگرہ کارڈ کھیلا جارہا ہے، ہندو توا نظریہ کو تقویت پہنچانے کیلئے ووٹ مانگا جارہا ہے ، کوئی پہاڑیوں، بکروالوں، گوجروں، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب زمرے سے وابستہ لوگوں کی ترقی کیلئے ووٹ کا طلبگار ہے۔
ان سب ناموں کے نام پر ووٹوں کی طلبی جمہوریت کے مزاج اور جمہوری طرزفکر کے نام پر ایک ایسا دھبہ ہے جس کو دودھ اور شہد سے دھویا بھی جائے تو دھبہ مٹ نہیں سکتا۔ عالمی سطح پر اس طرزفکر اور طرز عمل پر لڑنے والے الیکشن اور رائے دہندگان کو مختلف ناموں، ازموں، خطوں ، طبقوں ، مذہبی عقیدوں وغیرہ پر تقسیم در تقسیم کرکے ووت مانگنا اور انہی بُنیادوں پر صاحب اقتدار بن جانے کی سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کی خواہشات کو پردوںکی اوٹ میں کرکے ہر الیکشن عمل کو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا روپ دے کر پیش کیاجارہا ہے لیکن مقامی رائے دہندگان جانتے ہیں کہ ان سے کس نام اور عقیدے کی بُنیاد پر ووٹ مانگے جارہے ہیں۔ یہ تقسیم لوگوں کو اگر چہ پسند نہیں لیکن مختلف طبقوں،زمروں اور عقیدوں سے وابستہ ہونے کی بُنیاد پر یہی لوگ ووٹ بھی دیتے ہیں اور ووٹ دیتے وقت اپنے اسی تقسیم کے نظریہ کی آبیاری ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ ان سیاستدانوں کی حوصلہ افزائی بھی کررہے ہیں جو لوگوں کو تقسیم کرکے صاحب اقتدار بننا چاہتے ہیں۔
کشمیرکے حوالہ سے کچھ لوگ ان ہی نظریات کو لے کر فی الوقت انتخابی میدان میں موجود ہیں اور لوگوں کے پاس جا کر اپنے انہی نظریات اور عقائد کی بُنیاد پر ان سے ووٹ طلب کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی سے وابستگی رکھنے والے ایک اُمیدوار نے ابھی چند ہی رو زقبل اپنی اس خواہش کااظہار کیا ہے کہ جموں وکشمیر میں مسلم سٹیٹ کی تشکیل کیلئے الیکشن میدان میں ہے، پی ڈی پی سے وابستہ ایک شیعہ اُمیدار نے اپنی کمیونٹی سے مخاطب ہوکر ووٹ طلب کرلئے، ایک اور سیاست کار نے اپنی الیکشن مہم کے دوران رافضی اور سنی شیعہ کا نعرہ بلند کیا۔
تعجب بھی اور صدمہ بھی اس ذہنیت کے اُمیدوار بحیثیت سیاستدان کشمیرکو کس سمت کی طرف دھکیل رہے ہیں، یہ لوگ کن کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں ، کیا کشمیر کی تین دہائیوں سے زائد لہو رنگ تصویر یہ فراموش کرچکے ہیں اور اب کشمیرکے خانوں میں کچھ نئے رنگ بھر کر کس آکار میںکشمیر کو دیکھنے کی آرزو میں بدحواس ہورہے ہیں۔
کشمیر کاووٹ بھی تقسیم ہے اور ووٹر کو بھی تقسیم کردیاگیا ہے ۔ اس تقسیم کا براہ راست ذمہ دار وہ سیاستدان ہیں جو ہوس اقتدار کی دوڑ میں اپنافکری اور ذہنی توازن کھوتے جارہے ہیں ۔ جموں کے ووٹر سے جموںاور اب کی بار جموں کی سرکارکے نام پر ووٹ مانگے جارہے ہیں ، انہیں مذہبی عقیدوں کابھی واسطہ دیاجارہاہے، ڈوگرہ تاریخ کو بھی پیش کیاجارہاہے، وطن پرستی اور قوم پرستی کا بھی واسطہ دیاجارہا ہے بلکہ اس مخصوص واسطہ کو گھرگھر تک پہنچایاجارہاہے اس کے برعکس کشمیرمیں سیاستدان اور آزاد اُمیدواروں کی ٹولیاں شیعہ سنی رافضی، کچھ دبے الفاظ میں رائے شماری ، کچھ سودا گرانہ ذہنیت کا نیا روپ دھارن کرکے میدان میں اپنے سابق کردار وعمل اور سیاسی نظریے کو ان کے مطابق اب بدلتے حالات میں منوں وزنی مٹی ڈال کر جلوہ گر ہونا چاہتے ہیں۔ اس تقسیم کا ذمہ دار نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، الطاف بخاری اور سجاد غنی لون تو براہ راست ہیں البتہ اس تقسیم کو اور شدت اور وسعت عطاکرنے کیلئے ممنوعہ جماعت اپنا چوغہ بدل کر انجینئر رشید کے ساتھ مل کر میدان میں اپنا مخصوص کرداراداکررہے ہیں۔
اس بات سے اتفاق کرنے کی سو فیصد گنجائش ہے کہ جب کچھ حلقے اس الیکشن پراسیس کوتاریخی، منفرد اور دوررس نتائج کا حامل الیکشن کے طور پیش کررہے ہیں۔ کشمیرکے وہ ووٹر جو باریک سے باریک پہلوئوں پر نظر رکھتے ہیں، جو ہراعتبار سے سنجیدہ ہیں ، جومعاملات کو سمجھ رہے ہے گذشتہ کچھ دہائیوں سے پیش آمدہ معاملات اور واقعات اوران کے تعلق سے پیدا گھمبیر صورتحال کے آنے والے دنوں میں مضمرات کی بو محسوس کررہے ہیں الیکشن کے موجودہ منظرنامے کے تعلق سے خود کو ایسی اقلیت میں محسوس کررہے ہیں جو بے دست اور لاچار ہے۔
اس الیکشن عمل میں شرکت سے بہتر یہ تھا کہ یہ سارے لوگ آپس میں دسترخوان پر بیٹھ کر اپنے اپنے حصے کی چھکی ہڈیوں کے تناسب سے منڈیٹ بانٹ لیتے اور حکومت تشکیل دیتے، اس طرح نہ عوام کا وقت برباد ہوتا، نہ جھنڈے اور بینر نصب کرنے کی ضرورت پیش آتی، نہ تقریروںکے لئے مجلسوں کو آراستہ کرنے کی ضرورت ہوتی، نہ شیعہ سنی رافضی اوردوسرے نظریات کی ترویج کا موقعہ ہاتھ آتا اور نہ ہی جموں خطے میں جموں کے نام پر ووٹروں کے ذہنوںکو زہر آلود کرنے کا ہی راستہ اختیار کرنے کی نوبت پیش آتی۔
نہ کوئی بی جے پی کا پراکسی قرارپاتا، نہ کسی کو چھوٹا بھائی کا طعنہ سہن کرنا پڑتا، نہ محبوبہ جی کو بار بار اس الزام اور طعنہ کا سہن کرنا پڑتا کہ اس نے بی جے پی کو کندھے پر بٹھا کر کشمیر میں محفوظ راہداری دی، نہ این سی کو جموں وکشمیر کا ہند یونین کے ساتھ الحاق کو یقینی بنانے کی گردان کا بار بار یہ کہکر دفاع کرنا پڑتا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو کشمیر پاکستان کا حصہ بن چکا ہوتا۔
۔۔۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

رازوں پر سے پرہ اٹھ رہا ہے !

Next Post

مجھے ہرانے کیلئے سجاد اور عمر میں گٹھ جوڑ ہے :انجینئر رشید

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
مجھے ہرانے کیلئے سجاد اور عمر میں گٹھ جوڑ ہے: انجینئر رشید

مجھے ہرانے کیلئے سجاد اور عمر میں گٹھ جوڑ ہے :انجینئر رشید

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.