اپنے کشمیر میں انتخابی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے… بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے…گرچہ ابھی پہلا مرحلہ دور ہے…ایک دو ہفتے دور ہے‘ لیکن … لیکن جس تیزی سے موسمی درجہ حرارت کم ہورہا ہے… اسی رفتار سے سیاسی پارہ چڑھ رہا ہے… بلند ہو رہا ہے…ایسا لگ رہا ہے کہ این سی اور پی ڈی پی کی قیادت نے اپنی اپنی تلواریں میانوں سے باہر نکالی ہیں اور… اور ایک دوسرے پر وار پر وار کررہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کی صف اول کی قیادت اس میں پیش پیش ہے… ایک طرف میڈم… میڈم محبوبہ جی کمان سنبھالے ہو ئے ہیں اور دوسری جانب عمر عبداللہ ۔ دونوں ایک دوسرے پر حملے کررہے ہیں… الیکشن کا سیزن ہے اور یقینا الیکشن میں یہ سب کچھ ہو تا رہتا ہے… کشمیر کیا ‘ ملک کیا دنیا بھر میں ہو تا رہتا ہے… اس لئے کشمیری استثنیٰ نہیں ہو سکتا ہے… کشمیری سیاستدان استثنیٰ نہیں ہو سکتے ہیں… بالکل بھی نہیں ہو سکتے ہیں… اس لئے ہمیں میڈم جی اور نہ عمر عبداللہ سے کوئی شکوہ ہے ۔لیکن… لیکن ہاں ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ اگر یہی کرنا تھا … اگر ایک دوسرے کو برہنہ کرنا تھا … تو پھر دونوں نے کشمیریوں کو بڑے بڑے خواب کیوں دکھائے… دونوں نے کشمیریوں کے حقوق کی باز یابی کیلئے ایک ساتھ لڑنے کی قسمیں کیوں کھائیں…ایک ساتھ کشمیریوں کو وہ سب کچھ واپس دلانے کے عہد و پیمان کیوں کئے جو کشمیریوں سے’چھین‘ لیا گیا …اپنے عمر تو اُن انتخابات پر لعنت بھیج رہے تھے جن انتخابات کا مقصد اور ہدف اقتدار ہو… اور آج دونوں کیا کررہے ہیں… کیا آج دونوں کشمیریوں کی لڑائی لڑ رہے ہیں یا پھر اپنی اپنی جماعت کی لڑائی؟عمرعبداللہ کانگریس کے ساتھ حکومت بنانے کی بات کررہے ہیں اور… اور میڈم محبوبہ جی چیلنج کررہی ہیں کہ ان کی جماعت کے بغیر کوئی بھی پارٹی جموں کشمیر میں حکومت نہیں بنا سکتی ہے… بالکل بھی نہیں بنا سکتی ہے … ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو… ممکن ہو کہ کل الیکشن کے بعد دونوں جماعتیں ایک ہی صف میں نظر آئیں گی… لیکن وہ نئی صف بندی کشمیریوں کیلئے نہیں ہو گی… بلکہ اقتدار پر قبضہ جمانے کیلئے ہو گی… اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہو گی … اللہ میاں کی قسم ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے… اعتراض نہیں ہوتا … اگر یہ جماعتیں روپ بدل کر کشمیریوں کی خیر خواہ ہونے کا ناٹک نہیں کرتیں… بالکل بھی نہیں کرتیں ۔ ہے نا؟