کشمیر نشین سیاسی پارٹیوںاور وابستہ لیڈر شپ کی سیاست، انداز فکر اور طرز عمل کے بارے میںخودان کے کرداراور اور قول و فعل، چاہے برسر اقتدار رہی ہے یا اقتدار سے باہر، کا تجزیہ کریں اور کم سے کم الفاظ میں سمیٹ لیں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ’’استحصال‘‘ کے علمبردار بھی ہیں ، پیروکار بھی ہیں اور ان کا مذہب بھی یہی ہے۔
حصول اقتدار اور تحفظ اقتدارکے حوالے سے ہی ان سب کی کارکردگی ، اپروچ، انداز فکر اور طرز عمل اور بیانات پر محض سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ استحصال کو یا تو انہوں نے جنم دیا ہے یا استحصال نے انہیں! کب کس نے عوام کے احساسات اور جذبات کا استحصال نہیں کیا، کب کس نے حصول اقتدار کی خاطر اپنے سیاسی حریف کی ٹانگیں کھینچ کر اس کے اقتدار کے خلاف ساز شیں نہیں کی، کب کس نے اپنے ساتھی لیڈر کو چھٹا کلمہ قرار دے کر بعد میں بیٹھ پیچھے اپنے سیاسی آقائوں کے ساتھ سازباز کرکے چھرا گھونپ کر اقتدار حاصل نہیں کیا؟ کب کس پارٹی اوروابستہ لیڈر شپ نے دہلی کی کشمیر کے حوالہ سے اندھی سیاسی مصلحتوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے معذرت خواہانہ، سوداگرانہ، ملازمانہ اور غلامانہ رول ادا نہیں کیا، کب کس نے اقتدار کی کرسی سے چمٹے رہنے اور اس کے تحفظ کے لئے اپنی افرادی قوت کی بیساکھیوں کا پہلے سہارا نہیں دیا اور پھر وقت آنے اور موقعہ ملنے پر ان بیساکھیوں کو پائوں تلے سے ہٹا کر زمین چاٹنے پر مجبور کیا، یہ اور ان سے مشابہت متعدد معاملات اور واقعات کشمیر کی عصری تاریخ کا ان مٹ حصہ ہیں، انکار یا تردید کی زرہ بھر بھی گنجائش نہیں ہے ۔
لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کون کیا کررہا ہے اور اس کے ارادے، عزائم اور ایجنڈا کیا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں نے بار بار ان پر بھروسہ کیا، اپنا اعتماد دیا اور اپنا منڈیٹ دیا لیکن ہر بار انہوں نے اُس اعتماد، اُس بھروسہ اور اُس منڈیٹ کی روح تک کو پامال کرکے رکھ دیا، عوام کے حقوق، مفادات ،معاملات کے تعلق سے ان کی دیرینہ خواہش، آرزوئیں اور ضرورتوں کی بات تو کی ، لیکن لپ سروس کی حد تک، اصل میں حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مخصوص سیاسی آقا کی خوشنودی اور سرپرستی کا ہاتھ اپنے سروں پر بنانے اوربرقرار رکھنے کیلئے سودا گرانہ رول ہی ادا کرتا رہا۔
زخموں سے چور، اپنوں اور بیگانوں کے استحصال اور جبر و قہر، اور گرتے پڑتے اور پھر سے اٹھتے آج یہاں تک پہنچ گئے اس مخصوص امید کے ساتھ کہ شاید عوام کی سیاسی قیادت کے ان دعویداروں کو ہوش آیا ہوگا، ان کے اندر کا احساس بیدار ہوا ہوگا، لوگوں کی تکالیف اور پریشانیوں کا کچھ نہ کچھ فہم اور ادراک ہوا ہوگا، اور شاید اب کی بار یہ عوام کے وسیع تر مفادات کی سمت میں یہ کچھ بہتر کریں گے ، بہتر سوچیں گے ، اور عوام کیلئے کچھ خوشگوار اور راحت بخش اقدامات کی سمت میں مثبت انداز فکر کے ساتھ کام کریں گے اور سب سے بڑھ کر آپس میں مفاھمت کے جذبے سے کام لیتے ہوئے عوام تک یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے آپس میں روحوں کا اتحاد نہ سہی، فکری اتحاد نہ سہی ، ایجنڈا اور نظریات کے حوالہ سے نہ سہی لیکن جسموں کا اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہیں اور جسموں کا یہ اتحاد ہم عوام کے وسیع تر مفادات بالخصوص حال اور مستقبل کے چیلنجوںکو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کررہے ہیں لیکن شومئی قسمت یہ پارٹیاں آپس میں جسموں کا اتحاد بھی قائم نہ کرسکے ہیں۔
اگست کے واقعات کے بعد ان پارٹیوں نے آپسی الائنس کرکے گپکار الائنس کی داغ بیل ڈالی تو عوام کا ردعمل بھی مثبت اندازسے سامنے آیا لیکن گپکار الائنس کے مخالفین نے پہلے دن سے ہی اس کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کردیا۔ اسے گپکار گینگ کا نام دیا گیا، اور پیشنگوئی کرتے رہے کہ بہت جلد اس غبارہ سے ہوا نکل جائیگی، ایسا ہی ہوا، پہلے سجاد غنی لون داغ مفارقت دے گئے ، پھر دوسرے چلے گئے ، پھر محبوبہ جی نے دامن سمیٹ لیا باقی رہا محمد یوسف تاریگامی اور نیشنل کانفرنس ۔ اس ناکامی کے بعد اب یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ جس زور اور بھر پور طاقت کے ساتھ کشمیر پر حملے ہو رہے ہیں انہیں روکنے اور ان کا توڑ کرنے کیلئے کم سے کم آپس میں مزاحمت کے حوالہ سے کوئی روڑ میپ وضع کرلیا جائیگا، لیکن ہوکیا رہا ہے، یہ ایک دوسرے کو ملکی سیاسی منظر نامے اور سرحد پار کے پاکستانی سیاسی منظر نامے کے عین طرز اور سٹائل پر گالیاں بھی دے رہے ہیں، طعنوں کی برسات بھی کررہے ہیں، کردار کشی کا طوفان بھی لا رہے ہیں، ایک دوسرے کے ماضی کے سیاسی کردار کو لے کر ایک دوسرے کو الف ننگا بھی کررہے ہیں، دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ بیانات کو کچھ اس انداز سے سامنے لایا جارہا ہے کہ ان کا بین السطور مطالعہ کرنے سے یہ محسوس ہوتا ہے بلکہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ان بیانات میں بیرون جموںوکشمیر کسی کسی کیلئے پیغام بھی پوشیدہ ہے ۔
عمر عبداللہ بار بار اپنی تقریر وں میں اس تاریخی سچ کو بیان کرکے پی ڈی پی کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ اس پارٹی نے اقتدار کی خاطر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا اور حکومت بنائی، جواب میں پی ڈی پی بھی نیشنل کانفرنس کی قیادت پر بھاجپا کے ساتھ شریک اقتدار کا تاریخی سچ سامنے لاتی رہتی ہے، دونوں کو معلوم ہے اور جانتے ہیں کہ ماضی میں وہ بی جے پی کے اقتدار اور تعاون کے حوالہ سے شکمی شریک رہے ہیں لیکن پھر بھی طعنہ زنی اور کردار کشی کیوں؟ اب اسی حوالہ سے نیشنل کانفرنس کا ایک وقت کا گھر کا سب کچھ دیویندر رانا بھی میدان میں آگیا ہے اور دعویٰ کررہا ہے کہ 2014 میں نیشنل کانفرنس نے بی جے پی کو اقتدار میں شرکت کی پیشکش کی تھی لیکن بی جے پی نے انکار کیا، دس سال تک خاموش رہنے کے بعد اب رانا صاحب اپنی نئی پارٹی بی جے پی کا گیت گارہے ہیں اور ۳۷۰ کے تعلق سے بڑے بڑے دعوے کررہا ہے لیکن جب این سی میں تھے تو کشمیر کی شناخت نیشنل کانفرنس کے تاریخی سیاسی کردار اور قیادت کے نظریات میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے تھے ۔ یہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے سے مترادف معاملہ نہیں البتہ اعتماد اور وفاداری کی پیٹ میں چھرا گھونپنے سے عبارت ہی قرار دیاجاسکتا ہے۔
نیشنل کانفرنس اور کانگریس مسلسل دعوے کررہی ہیں کہ وہ آئیندہ حکومت تشکیل دیں گے لیکن پی ڈی پی دعویٰ کررہی ہے کہ اسے کنگ میکر کی حیثیت حاصل ہے اور اس کے تعاون کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی۔ پی ڈی پی خود کو کنگ میکر کے روپ میں پیش کرکے درحقیقت کس کو پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے ۔ کیا ۲۰۱۴ کو نارتھ اور سائوتھ بلاکوں کو آپس میں منسلک کرنے کے خود اختراعی نریٹو کا اعادہ ہونے جارہا ہے یا اس سمت میں تیاریوں کا درپردہ آغاز کردیا گیا ہے ۔ ادھر بی جے پی بھی دعوے کررہی ہے کہ وہ اگلی سرکار تشکیل دے گی جو بقول اس کے ڈبل انجن سرکار ہوگی۔
الیکشن کی گہما گہمی کے حوالہ سے اب تک جو کچھ بھی سرگرمیاں ہوئی، بیانات سامنے آتے رہے ، زمینی سطح پر جو کچھ معاملات وقوع پذیر ہور ہے ہیں، الیکشن پر اسیس کو سیاسی سطح اور ایک بار پھر اندھی اور حقیر سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر پراگندہ بنانے، اور منافقانہ طرز عمل اور انداز فکر کا اب تک بدترین مظاہرہ کرنے کے تعلق سے سب کچھ سامنے ہے اور کچھ بھی اب پردوں کی اوٹ میں نہیں ہے، اس کے باوجود کشمیر نشین پارٹیاں یک جٹ نہیں ہو پا رہی ہیں، عوام کے وسیع تر مفادات کو پائوں تلے روندھتی جارہی ہیں اور اپنے نئے نئے سیاسی محلات کی تعمیرکی سمت میں پاگل ہوتی جارہی ہیں، کچھ تو شرم کرو، بنگلہ دیش کے حالیہ منظر نامہ کو اپنے لئے چشم کشا، نقش راہ اور نوشتہ دیوار تصور کرکے سنبھل جائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے کل میں ان کی قبروں پر پہرے ہی پہرے دکھائی دیتے رہیں اور لوگ بحیثیت مجموعی اپنے لئے خود راستے تلاش کریں۔