الیکشن پر اسیس کے تناظرمیں حلال اور حرام کی بحث چھیڑ کر کشمیر نشین دو مخصوص سیاسی جماعتیں کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ بحث الگ سے ہے لیکن فوری طور سے یہی تاثر پید ا ہوتا جارہا ہے کہ دونو ں پارٹیاں قوم کو ایک اور تقسیم اور منافرت کی سیاست اور معاشرتی سطح پر ایک نظریاتی بحران کی طرف دھکیلنے کی شعوری اور دانستہ کوشش کررہی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کب اور کس نے الیکشن کو کشمیرکے وقت کے مخصوص سیاسی منظرنامہ میں حلال اور حرام قراردیاتھا اگر فی الوقت کسی نئے نظریہ ، طرز انداز اور طرز اپروچ باالخصوص بدلتے سیاسی منظرنامے میں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والے رواں الیکشن پراسیس میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں تو اُس میں سیاسی اعتبار سے بادی النظرمیں کوئی قباحت نہیں ہے البتہ قباحت کی بو اُس انداز فکر اور طرزعمل سے محسوس کی جارہی ہے جو کشمیر نشین نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے اختیار کر رکھا ہے ۔
جماعت اسلامی کی قیادت الیکشن کا حصہ دار بننا چاہتی ہے اور اب تک اس نے کچھ اُمیدوار میدان میں بھی بحیثیت آزاد اُمیدوار اُتارے ہیں۔ جماعت پر پابندی عائد ہے اوراس کی قیادت چاہتی ہے کہ اس پابندی کو ہٹادیا جائے، اس کے حامیوں کے جن اثاثوں کو ضبط کرلیاگیا ہے انہیں واگذار کیاجائے جبکہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے پارٹی کی قیادت کے کچھ دعویدار وں کا دعویٰ ہے کہ وہ د ہلی کے ساتھ رابطہ میں ہیں، بات چیت ہوئی ہے لیکن دہلی خاموش ہے۔ البتہ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ، اپنی پارٹی ، پیپلز کانفرنس کے علاوہ انفرادی سطح پر کچھ دوسرے حضرات جماعت اسلامی پر سے عائد پابندیوں کو ختم کرنے کی پُر زور وکالت کررہے ہیں اور پارٹی سے وابستہ لوگوں کی الیکشن میں شرکت کا خیر مقدم کررہے ہیں۔
یہ وکالت اس شدت کے ساتھ کیوں کی جارہی ہے ۔ اس بحث کو کچھ اور رنگ عطاکرنے کیلئے حرام اور حلال کی بحث کیوں چھیڑ ی جارہی ہے ، یہ بحث چھیڑ کر کس پارٹی کو اس کا فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہے، آئین اور جمہوریت ملک کے ہر شہری کو الیکشن لڑنے اور ووٹ دینے کی ضمانت دے رہا ہے لیکن جماعت اسلامی کے تعلق سے اوسط شہری کچھ سوالات کررہے ہیںان سوالوں کا جواب ابھی تک کسی نے نہیںدیا، خود جمات اسلامی کی قیادت اور وہ کچھ اُمیدوار جو نامزدگیاں داخل کرچکے ہیں بھی جواب نہیں دے رہے ہیں ماسوائے اس بات کے کہ بدلتے حالات کا یہ تقاضہ ہے کہ الیکشن پراسیس میں شمولیت اختیار کرلی جائے۔
حلال وحرام کی بحث چھیڑ کر دونوں پارٹیاں درحقیقت ان خاکوںمیں رنگ بھر نے کا رول اداکررہی ہیں جن خاکوں کو کشمیر کے حوالہ سے سیاہ بنایا گیا ہے۔ ان خاکوں کا تعلق عوام کے روز مرہ معمولات سے ہے، ان کے حقوق اور مفادات سے ہے، پائیدار اور باوقار حصول روز گار سے ہے، زمین کی ملکیت سے ہے اور ملازمتوں میںاپنی آبادی کے حجم او رتناسب کے تعلق سے حصہ داری کے تحفظ سے ہے ، کشمیرکے سیاحتی مقاما ت کو کنکریٹ جنگلوں میںتبدیل کرکے انہیں بیرون ریاستوں کے سرمایہ داروں کی جھولیوں میںسرمایہ کاری کی آڑ میں ڈالنے کی تیز رفتار اور اندھی دوڑ سے ہے، کشمیرکے مخصوص ماحولیاتی توازن کو مزید تباہی وبربادی سے بچانے کے اقدامات سے ہے، آبی وسائل پر پہلے حق کی حفاظت سے ہے، قدرتی معدنیات اور کان کنی کے تعلق سے معاملات کے تحفظ اور ان امورات سے وابستہ روزگار مقامی باشندوں کیلئے مخصوص اور وقف کرنے سے ہے، بڑھتی منشیات کی سمگلنگ ، استعمال اور نتیجہ میں ہورہی تباہی کے حوالہ سے انسدادی اور تدارکی اقدامات کو مرتب کرکے سختی سے عملی جامہ پہنانے تاکہ نوجوان نسل کی وہ تعداد جو اس راستے پر چل پڑی ہے کی صحت مندی اور سلامتی کے ساتھ واپسی کو ممکن بنایا جاسکے سے ہے اور بھی کئی حساس اور سنگین نوعیت کے اشوز ہیں جو پردے میں بھی ہیں اور پردے سے باہر بھی ہیں کا سامنا ہے۔
لیکن پارٹیاں ان اشوز پر نہیں حلا ل وحرام کی جنگ اور بحث میںاُلجھ کر قوم کو ذہنی اور فکری اعتبار سے خلفشار میں مبتلا کرنے کی دانستہ کوشش کررہی ہیں۔ جو لوگ اور لیڈران جماعت کے حوالہ سے بیانات دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کررہے ہیں وہ زائد از تیس سالہ خون خرابہ کے حوالہ سے کیوںسوال نہ پوچھ کر حلا ل وحرام کی بحث میںلوگوں کو اُلجھا رہے ہیں۔
عمر عبداللہ بحیثیت وزیراعلیٰ کئی بار’’ سچ اور جھوٹ کا پتہ لگانے کیلئے کمیشن کی تشکیل ‘‘کی وکالت کیا کرتے تھے لیکن اب ان کی زبان پر یہ بات نہیں ، محبوبہ مفتی آج بارہمولہ کے پارلیمانی حلقہ میں آزاد اُمیدوار کی عمرعبداللہ کے مقابلے میں کامیابی کو رائے شماری کے جذبہ کے اظہار سے منسوب کررہی ہیں لیکن اقتدار میں آنے پر نوجوان گھروں سے باہر مٹھائیاں اور دودھ خریدنے کیلئے نہیںنکل رہے کے نظریہ اور موقف کی وکالت کرتی رہی۔ اس کی پارٹی ایک مرحلہ پر بات بنے گی گولی سے کانعرہ کا موقف اور اپروچ رکھتی تھی اور اس موقف میں اقتدار کی مصلحتوں کے پیش نظر تبدیلی لاکر گولی سے نہیں بولی سے کانعرہ پیش کیا۔ جو دوسرے کچھ سیاستدان ہیں وہ بھی اگر چہ جماعت کی الیکٹورل پراسیس میں شرکت کی بات کررہے ہیں لیکن تیس سالہ ہلاکتوں، تباہی وبربادی ، کھنڈروں میں تبدیل بستیوں، ازیت رسانیوں اور حراستی وغیر حراستی گمشدگیوں کے معاملات کے ذمہ دار کون ہیں کی بات نہیں کرتے۔ یہ سیاست نہیں بدترین منافقت بھی ہے اور خباثت کی انتہا بھی ۔ پھر یہ بھی تلخ سچ ہے کہ اُس دور کے کچھ بندوق بردار آج کی تاریخ میںقوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر کم وبیش ہر پارٹی کی صف میں موجود نظرآرہے ہیں ، کیا وہ اُس دور کے ذمہ دار نہیں!
ایسا محسوس کیاجارہا ہے کہ جیسے کشمیر کے وسیع ترمفادات کے ساتھ ایک اور مگر کسی نئے عنوان اور لبادے کی آڑ میںکھلواڑ کرنے کی راہیں تلاش کی جارہی ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی اور نہ ان سے وابستہ کسی لیڈر کی فکر اور اپروچ سے اس کے اندر یہ احساس دامن گیر نظرآرہا ہے کہ انہیںتیس سالہ تباہی اور ہلاکت خیزی پر کوئی افسوس ہے۔ان کا مطمع نظر او رمطمع حیات صر ف اور صرف اقتدار ہے اور اقتدار کے حوالہ سے اپنے اور اپنے خاندانوں کیلئے مراعات اور عیاشیوں کے سامان کی یقینی حصولیابی ۔ ان کی اس ہوس گیری کا ایک اور چہرہ ابھی ابھی بے نقاب ہوا جب خاندانوں اور اپنے گھرانوں سے وا بستہ افراد کو منڈیٹ دے کر الیکشن میدان میں جھونک دیا۔
ٍ یہ سارے ان کی اب تک کی اپنی مخصوص فکراور کارکردگی کے ہی حوالہ سے بدترین استحصالی ثابت ہوئے ہیں جبکہ اس استحصال کا خاتمہ یقینی بنانے کیلئے لوگوں نے بے مثل قربانیاں پیش کیں، ازیتوں کے پہاڑ سہے لیکن کشمیر کاسیاست دان اپنے کورپٹ اور استحصالی راستے پر گامزن ہے اور اپنے موقع بے محل بیانات سے یہ تاثر دے رہا ہے کہ کشمیر کا شہری تمام تر مسائل اور پریشانیوں سے آزاد ہے ۔
خُدا را اب بس کرو، حلال وحرام کی یہ جنگ چھوڑ دو ،کشمیر کے وسیع تر مفادات کی واپسی اور اس کے تحفظ کی بات کریں، لوگوں کو مختلف خانوں میںتقسیم کرنے کی اپنی مذموم اور مکروہ سوچ اور طرزعمل سے اجتناب کریں اور اگر واقعی جماعت اور اس سے وابستہ لوگ مخلص ہیں تو اپنے تیس سالہ کردار پرپہلے قوم باالخصوص ان گھرانوں جو متاثر ہوتے رہے ہیں سے معافی مانگ لیں اور ساتھ ہی اپنے اُن دوسرے ساتھیوں سے کنارہ کشی کا اعلان کریں جو سرحد پار جمات کے نام پر کشمیرکی دُکانیں سجھائے بیٹھے ہیں!