تو صاحب اب چونکہ اپنے کشمیر … جموں کشمیر میں الیکشن ہو رہے ہیں… دس برسوں کے بعد اسمبلی الیکشن ہو رہے ہیں تو… تو سبھی لوگ خوش ہیں… لوگ ہی نہیں بلکہ سیاستدان بھی خوش ہیں …وہ بھی جو الیکشن جیت جائیں گے اور… اور وہ بھی جن کے گلے میں ہار کا ہار پہنایا جائیگا … یوں سمجھ لیجئے کہ ہر سو خوشی کا ماحول ہے… ایسے میں اگر کوئی ناخوش ہے‘ ناک چڑھائے بیٹھا ہے تو… تو وہ سچ ہے ‘ جی ہاں سچ۔اوراس لئے ناک چڑھائے بیٹھا ہے کیونکہ اس کے حریف … یعنی جھوٹ کا بول بالا ہے… انتخابات کے بازار میں جھوٹ کا سینسکیس تیزی سے اوپر جا رہا ہے… اور جتنی تیزی سے یہ بلند ہو رہا ہے… اتنی رفتار سے سچ کا سینسیکس ڈاؤن ہورہا ہے… اس میں گراوٹ آ رہی ہے ۔ سیاسی جماعتیں لوگوں کو ‘ ووٹروں کو اپنی طرف ورغلانے اور راغب کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیں رہی ہیں… انہوں نے سچ کو فی الحال مقید کر رکھا ہے‘وہ بھی یو پی اے پی کے تحت… سیاسی جماعتوں کے جو یہ انتخابی منشور جاری ہو رہے ہیںوہ جھوٹ کا پلندہ ہے… اس میں وعدے… لوگوں سے جھوٹے وعدے کئے جا رہے ہیں…لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے… لوگوں سے جھوٹی باتیں کی جا رہی ہیں… انہی جھوٹی امیدیں بھی دی جا رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں سے وفادارایاں بھی جھوٹی ہی ثابت ہو رہی ہیں… کہ… کہ اگر ایسا نہ ہو تا تو… تو آنے جانے کاسلسلہ اس قدر رفتار نہیں پکڑ لیتا … بالکل بھی نہیں پکڑ لیتا ۔ہم تو اُن دروازوں کی ہمت کی داد دئے بغیر رہ نہیں سکتے ہیں جو بند ہی نہیں ہو رہے ہیں… ان دروازوں کوپارٹی چھوڑنے یا پھرکسی دوسری پارٹی میں شامل ہو نے کیلئے ۷x۴۴ بار بار کھولا جارہا ہے…ہم تو اللہ میاں کا شکر کرتے ہیں کہ جس طرح اس وقت جھوٹ کی مانگ اور طلب بڑھ رہی ہے تو… تو اگر اسی طرح اشیائے ضروریہ کی بھی بڑھ جائیگی تو… تو قیمتیں کہاں پہنچ جائیں گی… شکر ہے کہ… کہ جھوٹ وافر مقدار میں دستاب ہے اور… اور یہ ایسی فصل ہے جو سال کے بارہ مہینے اگتی ہے‘ہمارے دل و دماغ میں اگتی ہے اس لئے بڑھتی طلب کے باوجود اس کی قلت نہیں ہو گی اور… اوریہ بات بے چارہ سچ بھی جانتا ہے… یہ جانتا ہے کہ اس وقت انتخابی بازار میں اس کی قدر و قیمت کچھ بھی نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے‘ کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے… کسی کو اس کی ضرورت نہیں ہے… کم از کم آئندہ ایک ڈیڑھ مہینہ تو بالکل بھی نہیں ہے اور… اور اسی بات سے دکھی ہو کر سچ کسی تاریک کونے میں ناک چڑھائے بیٹھا ہے۔ ہے نا؟