نئی دہلی// مختلف دھرم گرووں نے بچوں کی شادی سے پاک ہندوستان کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی مذہب بچوں کی شادی کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔
ہندو، اسلام، سکھ، عیسائی، بدھ، بہائی، جین، یہودی اور پارسی مذاہب سے تعلق رکھنے والے 17 مذہبی رہنماؤں نے پیر کو یہاں منعقدہ ایک بین مذہبی مکالمے کے پروگرام میں کہا کہ ہمیں بچپن کی شادی سے پاک ہندستان کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اتحاد کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس مکالمے کا اہتمام چائلڈ میرج فری انڈیا (سی ایم ایف آئی) کے اتحادی پارٹنر انڈیا چائلڈ پروٹیکشن نے کیا تھا۔ چائلڈ میرج فری انڈیا کے پاس 200 سے زیادہ پارٹنر این جی اوز ہیں جو پورے ملک میں 2030 تک بچوں کی شادی کو ختم کرنے کے ہدف کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
مذہبی رہنماؤں نے ایک آواز میں کہا کہ کوئی بھی مذہب کم عمری کی شادی کی حمایت نہیں کرتا اور اس لیے کسی مذہبی رہنما یا پادری کو بچوں کی شادی نہیں کرنی چاہیے ۔ سبھی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذہبی مقامات کو اپنے احاطے میں بچپن کی شادی کے خلاف پیغامات دینے والے پوسٹر اور بینرز لگائیں اور اپنی کمیونٹی میں بچپن کی شادی کے برے رواج کو ختم کرنے کے لیے کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ تمام بچوں کو تحفظ، تعلیم اور ترقی تک رسائی حاصل ہونی چاہیے اور کم عمری کی شادی کرنے والوں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے ۔
اسلام میں کم عمری کی شادی کے بارے میں مشہور تصورات کی تردید کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے ڈاکٹر ایم اقبال صدیقی نے کہا کہ اسلام میں شادی کے لیے کسی عمر کی کوئی شرط نہیں ہے ، لیکن اسلام یہ ضرور کہتا ہے کہ دولہا اور دلہن دونوں کو شادی کے لیے رضامندی دینی ہوگی اور یہ ایک خاص عمر اور پختگی کے بعد ہی ہو سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام کہتا ہے کہ علم ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے ، لیکن بدقسمتی سے کچھ مذہبی رہنما علم کو مذہبی تعلیم تک محدود رکھتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کو ان تعلیمات کے منطقی نفاذ کے بارے میں سوچنا چاہیے اور انھیں سمجھنا چاہیے کہ انسانیت کو نقصان پہنچانے والا کوئی بھی قانون شریعت کے خلاف ہے ۔
ورلڈ پیس آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد اعجاز الرحمن شاہین قاسمی نے کہا کہ اسلام کم عمری کی شادی کی اجازت نہیں دیتا۔ انڈین آل ریلیجن پارلیمنٹ کے قومی کنوینر گوسوامی سشیل مہاراج نے کہا کہ بچوں کی شادی کا مسئلہ تمام مذاہب اور برادریوں میں موجود ہے اور ہم تمام مذہبی رہنما مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سی بی سی کے ڈپٹی جنرل سکریٹری ریورنڈ ڈاکٹر میتھیو کویکل نے کئی دہائیوں قبل بچوں کی شادی کے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ عیسائیوں میں شادیاں ‘چرچ کے قوانین’ کے تحت ہوتی ہیں۔
آچاریہ سنیل مونی مشن (اے ایس ایم سی) کے بانی جین مذہبی رہنما آچاریہ وویک منی مہاراج نے کہا کہ ہر مذہب کہتا ہے کہ علم انسان کو خوف، اندھیرے اور جہالت سے آزاد کرتا ہے ۔ اگر بچپن کی شادی کو روکنا ہے تو ہمیں ان جگہوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جہاں بچوں کی شادی کا رواج اب بھی جاری ہے اور ان اضلاع میں بیداری پھیلانی ہوگی۔ ہم بچوں کی شادی سے پاک ہندوستان کی اس مہم میں ساتھ ہیں۔
مکالمے میں بہائی سنٹر بہاپور کے ڈائرکٹر کارمل ایم ترپاٹھی، گلوبل سینٹ سوشل ویلفیئر فاؤنڈیشن کے بانی صدر سوامی چندر دیوجی مہاراج، یہودی کمیونٹی کے سربراہ ربائی ازقیل مالیکر، الیاسی مسجد کے ڈاکٹر عمر احمد، جماعت اسلامی کے ڈاکٹر عمر احمد، اسلامی ہند ایم اقبال صدیقی، شمالی کوریا میں ہندوستان کے سابق سفیر جسمندر کستوریہ، اور تبتی سپریم جسٹس کمیشن کے بدھسٹ آچاریہ یشی فونسٹونگ اور دیگر بھی موجود تھے ۔