آج ہمیں یقین ہو گیا اور … اور سو فیصد ہو گیا کہ اپنے گورے گورے بانکے چھورے‘عمرعبداللہ نے سچ میں اپنے بال دھوپ میں سفید کئے ہیں… بال ہی نہیں بلکہ داڑھی بھی … اگر ایسا نہیں ہوتا تو… تو یہ جناب اپنے پولیس سربراہ‘ آر آر سوائن کو مشورہ نہیں دیتے …یہ مشورہ نہیں دیتے کہ وہ اپنا کام کریں… اپنے کام سے کام رکھیں اورسیاست نہ کریں کہ سیاست کا کام سیاستدانوں کا ہے… اس لئے سوائن صاحب سیاست ‘ سیاستدانوں کیلئے ہی چھوڑ دیں۔حالیہ برسوں میں اس جیسا بچکانہ اور احمقانہ بیان ہم نے نہیں سنا ہے… عمرعبداللہ کیا کسی سے بھی نہیں سنا ہے… ان سے بھی نہیں سنا ہے جنہیں سیاست میں جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں آئے ہو ئے ہو گئے کہ… کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کشمیر ہے کشمیر… یہاں سانسوں کو زندگی سے الگ کیا جا سکتا ہے… دھڑکنوں کو دل سے جدا کیا جا سکتا ہے… خوشبو کو پھولوں سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے… لیکن کسی بھی چیز سے سیاست کو الگ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ… کہ اگر ایسا ہوا تو… تو پھر کشمیر اور ملک کی دوسری ریاستوں کوئی فرق نہیں رہے گا… بالکل بھی نہیں رہے گا کہ… کہ یہ سیاست ہی ہے‘ ہر ایک بات میں سیاست ہی ہے جو کشمیر کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے… اور یہ بات کشمیر کا بچہ بچہ جانتا ہے… نو زائیدہ بھی… لیکن نہ جانے اپنے گورے گورے بانکے چھورے یہ بات کیسے بھول گئے … سوائن صاحب نے روز گزشتہ یقینا جو کچھ کہا وہ سیاسی باتیں تھیں اور… اور سو فیصد تھیں … یہ بات تو پولیس سربراہ بھی جانتے ہیں… اس وقت بھی جانتے تھے جب وہ یہ سیاسی باتیں کررہے تھے… لیکن… لیکن ان کا سیاسی باتیں کرنا کوئی نئی بات ہے اور نہ انوکھی …۱۹۴۷ سے اب تک گزشتہ ۷۷ برسوں میں کشمیر میں اور کشمیر پر اتنی سیاست کی گئی ہے کہ… کہ اب یہاں کے آب و ہوا میں سیاست رچ بس گئی ہے … یوں سمجھ لیجئے کہ کشمیر کے آب و ہوا میں ہم جو سانس لے رہے ہیں اس کے ساتھ ہمیں سیاست فری میں ملتی ہے… اسی طرح جس طرح کسی چیز کو خریدنے پر ایک اور چیز فری میں مل جاتی ہے… اسی طرح سانس لینے پر ہمیں سیاست فری میں مل جاتی ہے… یہ بات عمر عبداللہ بھی جانتے ہوں گے… لیکن اگر انہوں نے پھر بھی پولیس سربراہ کو اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیا ہے تو… تو اللہ میاں کی قسم اس میں بھی کوئی سیاست… عمر عبداللہ کی کوئی سیاست ہی ہوگی ۔ ہے نا؟