’’اب جبکہ دہلی میں ہماری حکومت بن گئی ہے لہٰذا فیصلہ کیاگیا ہے کہ ہم جموںکشمیر میں اسمبلی الیکشن میں حصہ لیں گے، چالیس انتخابی حلقوں سے ہماری پارٹی کے اُمیدوار میدان میں اُتریں گے کیونکہ ہماری پارٹی سے وابستہ ایک سو سے زائد عہدیدار اور ارکان جموںوکشمیر کے مختلف اداروں کیلئے منتخب ہوکر کام کررہے ہیں‘‘۔ ان خیالات کا اظہار بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کے کچھ عہدیداروں نے گذشتہ روز کسی تقریب کے دوران کیا۔
مونگیری لال طرز کے سنہرے سپنے کے مترادف یہ اظہار خیال جے ڈی یو کے لیڈر مسٹر شاہین اور مسٹر بالی نے کیا۔ سپنے دیکھنے اور ان کا اظہار کرنے میں کوئی قباحت نہیں، جمہوری طرز عمل اور جمہوریت میںیقین رکھنے والے خاص طور سے اس نوعیت کے بیانات کی کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اس نوعیت کے خیالات یا دعوئوں کازمینی حقیقت سے کوئی مطابقت نہیںہوتی۔لیکن پھر بھی اگر جنتادل کے کچھ لیڈر یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ اب جبکہ مرکز میں ان کی پارٹی کی حمایت سے بی جے پی پھر سے اقتدار میں آئی ہے لہٰذا ان کی پارٹی کے لئے جموںوکشمیر میں اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہوئی ہے،غالباً مقصد یا اشارہ اس طرف ہے کہ ہماری پارٹی کے اُمیدوار مرکز ی سرکار اور چنائو کمیشن کی آشیرواد کے ساتھ یہ الیکشن جیت جائیں گے اور جے ڈی یو بھاجپا کے ساتھ مل کر جموںوکشمیر کی اگلی سرکار تشکیل دے گی، اس تعلق سے غالباً پارٹی نے اپنے لیڈر اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کو جموںوکشمیر کا اگلا وزیراعلیٰ کے روپ میں دیکھ رہی ہے۔
مذکورہ پارٹی جموںوکشمیر میں اتنی مقبول اور عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہوتی تو حالیہ پارلیمانی الیکشن میں اپنے اُمیدواروں کو میدان میں اُتار کر وہ اپنی مقبولیت کا ٹیسٹ کر سکتی تھی لیکن کیا نہیں؟ پھر بھی ہم جے ڈی یو کی اس مخصوص خواہش کا احترام بھی کرتے ہیں اور جموںوکشمیر میںآنے والے اسمبلی الیکشن میں حصہ لینے کا پیشگی خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن اس پارٹی اور اس سے وابستہ کچھ حالیہ منتخبہ ممبران پارلیمان اور پارٹی لیڈروں کا نظریہ ، اپروچ اور موقف کچھ اور ہی ہے۔ اگر چہ پارٹی سطح پر اس حوالہ سے ابھی کوئی پوزیشن واضح نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی تردید یا تصدیق لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو پیغام پارٹی سے وابستہ کچھ ارکان دے چکے ہیں وہ واضح ہے، بہت ٹھوس ہے اور اُس میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیںہے۔
پارٹی کے حالیہ منتخب ایک رکن دویش چند ر ٹھاکر نے سیتا مری حلقہ سے انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے بعد جو اعلان کیا وہ توجہ طلب بھی ہے اور غور طلب بھی ہے۔ انہوںنے ۱۷؍ جون کو ایک بیان دیا جس میں کہا کہ ’’ مسلمانوں اور یادوں نے ان کے حق میں ووٹ نہیں دیا لہٰذا بحیثیت رکن پارلیمنٹ میں مسلمانوں اور یادئوں کے تعلق سے کوئی کام نہیں کروں گا‘‘۔ اس بیان کے فوراً بعد کچھ حلقوں نے برا منایا اور ٹھاکرسے بیان واپس لے کر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ، جواب میں اس کا کہنا یہی تھا کہ وہ اپنے بیان پرقائم ہیں اور وہ ایسا ہی کچھ عرصہ سے کہتے آرہے ہیں۔
ابھی جے ڈی یو کے لیڈر کے اس بیان کی صدائے بازگشت سنی ہی جارہی تھی کہ بی جے پی سے وابستہ انڈومان نکوبار سے حالیہ منتخب ایک رکن بشنو پاڈا رائے نے بھی ایک ایسا ہی بیان دیا۔ کہا کہ ’’ہم لوگوں کا کام کریں گے لیکن وہ جنہوںنے ہمارے حق میں ووٹ نہیں دیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ نکوبار سے مجھے کوئی ووٹ نہیں ملا۔ کارنکو بار والے ذرا سوچیں کہ اب ان کے ساتھ کیا ہوگا ‘‘ مزید کہا کہ ’’آپ نکوبار کے نام پر فنڈز لے رہے ہیں، شراب پی رہے ہیں لیکن ووٹ نہیں دے رہے ہیں۔ خبردار رہیں… اب آپ کے دن خراب ہونے جارہے ہیں‘‘۔
ان دونوں بیانات سے واضح ہورہا ہے کہ ہندوستان کی سیاست ، سیاسی دھارائیں ،ا پروچ ، ذہنیت اور طرزعمل کس فسطائیت ، آمریت اور جنونیت کی طرف محوپرواز ہے۔ مذہب ، ذات، پات ، نسل ، طبقات، علاقائیت یا فرقہ واریت کے نا م پر الیکشن لڑنا اور اس کا پرچار کرنا اگر چہ کچھ ایک قوانین کی رئو سے غلط اور ناجائز ہے لیکن عمل آوری کے تعلق سے قانون اور وابستہ ادارے یا تو شتر مرغ بن رہے ہیں یا تین بندروں کا سا طرزعمل اختیار کررہے ہیں۔ اس حوالہ سے جوڈیشری کوئی رول ادا نہیںکررہی ہے اور نہ ہی چنائو کمیشن ، جو اب عوام کا اعتبار کھو چکا ہے الیکشن کے نام پر فاشسٹ نظریات اور انداز فکر سے عبارت بیانات کا ہی کوئی نوٹس لے رہا ہے۔
بی جے پی نے بھی پارٹی کی مرکزی سطح پر اپنے اس مخصوص ممبر کے بیان کا نہ بر امنایا اور نہ ہی تردید کی۔ ویسے بھی پارٹی نے الیکشن مہم کے دوران آبادی کے اس مخصوص طبقے کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ لہٰذا ایسے بیانات جو شرانگیز بھی ہے، فاشسٹ نظریات کے عکاس بھی ہیں، جمہوریت کی بُنیادی روح اور مزاج کے برعکس ہے جلد یا بہ دیر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب، مشترکہ ثقافت، کثرت میں وحدت، آپسی رواداری اور بھائی چارہ کی روح کو چھلنی بھی کرتا جارہا ہے اور مستقبل کے تعلق سے سم قاتل بھی ثابت ہونے جارہا ہے۔
بہرحال یہ ایک طویل مگر غور طلب اور توجہ طلب اشو ہے۔ البتہ اس مخصوص نظریے جس کا واشگاف پارٹی کے لیڈر ٹھاکرنے کیا ہے کے تناظرمیں جموںوکشمیر کی جے ڈی یو لیڈر شپ کس سیاسی اور اخلاقی وکٹ پرکھڑے ہوکر جموںوکشمیر کے مسلمانوں سے ووٹ طلب کرے گی، جبکہ جموں کے ووٹروں کی اکثریت جو ہندئو ں پر مشتمل ہے نے حالیہ پارلیمانی الیکشن میںواضح طور سے بی جے پی کے حق میں اپنے منڈیٹ کا اعلان کردیا۔ جو عددی اعتبار سے فی الوقت تک ۲۹؍ حلقے بنتے ہیں۔ باقی سات نیشنل کانفرنس اور سات کانگریس کے حق میں جاتے دکھائی دیئے۔
لیکن پھر بھی قسمت آزمائی میںکوئی حرج نہیں ہے۔قسمت آزمالیں، شاید کشمیری ضرب المثل کی مصداق’ ’ پَر گُگر چُھ کَران گھر گَگرَس تِہ لَار‘‘ شاید ان کے حق میں سچ ثابت ہو۔ اگر چہ کشمیرکے ووٹروں کی اکثریت نے ۳۴؍ حلقوں میں نیشنل کانفرنس کے حق میں اپنے منڈیٹ کا اعلان کردیا ہے جبکہ پی ڈی پی بحیثیت مجموعی ۵؍اسمبلی حلقوں سے جیت حاصل کرچکی ہے ۔ حالیہ پارلیمانی الیکشن کے تعلق سے جو کچھ تجزیے اُبھر کر سامنے آچکے ہیں ان کے تناظرمیں ان نئی چند پارٹیوں کیلئے بھی کوئی گنجائش نہیںجو حکمرا ن جماعت کی واضح حمایت کے باوجود اپنا ایک بھی کھاتہ نہیںکھول پائے ہیں۔ بہار نشین جنتادل کی لیڈر شپ کن مونگیری لال کے سپنوں میںکھوئی پڑی ہے معلوم نہیں،البتہ ان کے لیڈر نتیش کمار جن کچھ نومنتخب پارلیمانی حلقوں سے وابستہ اُمیدواروں کے بل بوتے پر مرکزمیں کنگ میکر بننے کی کوشش کررہا ہے وہ پہلے گریبان ٹٹولے کہ آیا یادوں اور مسلمانوں کا ان کے اُمیدواروں کی کامیابی میں کتنا حصہ رہاہے۔