پیر, مئی 12, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

اپنی پارٹی کا شکست پر حیران کن انکشاف

کشمیرنے پھر واضح کیا کہ کٹ پتلیاں ان کی پسند نہیں

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-06-07
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

سید الطاف بخاری کی قیادت میں اپنی پارٹی سے وابستہ ایک سینئر لیڈر وجے بقایا جو ریاستی ایڈمنسٹریشن میں ایک سینئر عہدے پر فائز رہ چکے ہیں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اپنی پارٹی کے پارلیمانی الیکشن میںاُتارے اُمیدواروں کی شکست کے بارے میں یہ حیران کن اعتراف اور انکشاف کیا ہے کہ کشمیر( ووٹروں) نے ان کے حق میں  اپنا حق رائے دہی اس لئے استعمال نہیں کیا کیونکہ مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی نے ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر نے اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ وجے بقایا نے اپنے اُمیدواروں کی شکست کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی ہے کہ کشمیرکے اہل تشیعہ ووٹروں نے سجاد غنی لون کی پارٹی سے وابستہ اہل تشیعہ لیڈر کی یقین دہانی کے باوجود ان کے اُمیدوار کے حق میں ووٹ منتقل نہیںکیا۔
وجے بقایا کے اس ردعمل کے کئی ایک پہلو ہیں۔ ایک نظریہ سے تجزیہ کیاجائے تو اس بیان کا مفہوم اور تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ اس میں دہلی کیلئے ایک پوشیدہ پیغام ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ دہلی کشمیرکیلئے چاہئے کچھ بھی کرے کشمیر نہ اپنی خو بدلنے کیلئے تیار ہے اور نہ وضع ، لہٰذا دہلی کیلئے لازم ہے کہ کشمیر کی پٹائی کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے اور جتنا ہوسکے کشمیرکو دبائے رکھنے کی راج نیتی پر سختی سے کاربند رہا جائے۔
دوسری تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ کشمیر نے اپنے مزاج کے مطابق وقتی طور سے ہی سہی راستہ تبدیل کیا ہو لیکن موقعہ ہاتھ آتے ہی وہ دہلی کی کشمیرکی کٹ پتلیوں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ سجدہ ریز ہونے کیلئے ! اس کا ثبوت یہ ہے کہ کشمیرنے وقتی طور سے بخشی غلام محمد ،میر قاسم، غلام محمدصادق وغیرہ دہلی کی کٹ پتیلوں کو تو برداشت کیا لیکن موقعہ ہاتھ آتے ہی اپنی چاہت کی لیڈرشپ کے ہاتھ پر ہی اپنی بیعت کو برقرار رکھا۔
تیسری تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ جس قیادت کو روایتی اور خاندانی قرار دے دے کر اپنی پارٹی اپنا نریٹوبِلڈ کررہی ہے دو پارلیمانی حلقوں سے اُس خاندانی پارٹی کے دو اُمیدواروں کو جو کامیابی ملی وہ کامیابی ردعمل میں ڈالے گئے ووٹوں کا شاخسانہ ہے۔ اگر چہ تیسری اُمیدوار کی ’’آزاد اُمیدوار‘‘ کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے اُس شکست کے عوامل واسباب کا گہرائی اور سیاسی تناظرمیں آنے والے دونوں میں تجزیہ ہوتا رہے گا اور وقت آنے پر شکست کے پیچھے محرکات واضح ہوکر عوام کے سامنے آسکتے ہیں۔ البتہ خودپارٹی کے سرپرست کے اپنے اختیار کردہ اسمبلی حلقے سے جو محض چند ہزار ہی ووٹ پارٹی اُمیدوار محمد اشرف میر کے حق میں پڑے ہیں وہ اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ ہے کہ خود پارٹی کے سربراہ کے حلقے کے ووٹر وں نے اس کے نامزداُمیدوار کو ناپسند کرکے مسترد کردیا ہے۔ شاید شکست کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کچھ سال قبل اس نے اپنی الیکٹورل جیت منانے کے جوش میں فائرنگ کا مظاہرہ کیا تو وہ منظر لوگوں کی ذہنوں میں پھر سے عود کر اُبھر اہو اور لوگوں نے بندوق کے تئیں اپنی ناپسندیدگی  کا ایک بار پھر مظاہرہ کرکے بندوق کی ذہنیت کے حامل لوگوںکو ان کا مقام شکست سے دوچار کرکے دکھایا ہو۔
کشمیر کی جغرافیائی حدود سے باہر قدم رکھتے ہوئے اننت ناگ پارلیمانی حلقے کے راجوری …پونچھ میں اوسط ووٹروں نے بھی اپنی پارٹی کے اُمیدوار ظفر منہاس کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ اس حوالہ سے جموں میڈیا کے ایک حصے میں بی جے پی قیادت سے یہ چبھتاسوال کیاجارہاہے کہ جس اُمیدوار کے حق میں پارٹی کی قیادت انتخابی مہم چلاتی رہی اور پارٹی کی قیادت کا ایک مخصوص مگر قدآور حصہ مسلسل دعویٰ کرتا رہا کہ صرف نوشہرہ اور گردنواح کے قریب پارٹی سے عہد بند ایک لاکھ ووٹر اپنی پارٹی کے نامزد اُمیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے منتظر ہیں وہ ووٹ کہاں گئے؟ اگر سوال یہ ہے کہ کشمیر میں ووٹرو نے بی جے پی کی حمایت کے اعلان کے ردعمل میں پارٹی کے اُمیدواروں کے حق میں ووٹ نہیںڈالے تو جموں کے اس مخصوص خطے کے بی جے پی کے حمایتوں نے ظفر مہناس کے حق میں ووٹ ڈالنے سے ہاتھ کیوں پیچھے کرلئے؟
ساری صورتحال کا تجزیہ کرنے کیلئے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن چونکہ الیکشن کے حوالہ سے معاملہ ابھی تازہ تازہ ہے اور ذہنوں پر مختلف پہلوئوں سے حاوی ہے لہٰذا شکست وجیت کے عوامل واسباب پر ہی بات کافی ہے ۔ یہ صورتحال چار سال قبل وجود میں لائی گئی پارٹی جس کی صفوں میںوہی لوگ شامل ہیں یا انہی لوگوں پر مشتمل ہے جو ماضی قریب میںخاندانی اور روایتی پارٹیوں سے وابستہ رہے ہیںلیکن چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کی اندھی دوڈ میں شامل ہوکر اس کا حصہ بن گئے ہیں کیلئے اب سوچ وچار کا لمحہ ہے انہیںاس بات کو ذہن نشین کرلیناچاہئے کہ نہ چڑھتے سورج کی پوجا ہمیشہ سایہ فگن رہتی ہے ، نہ دولت کی فراوانی اور نہ کسی اور کی کٹ پتلی بن کر میدان مارنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔
بے شک مرحوم شیخ محمدعبداللہ اور اس کے دست راست مرحوم مرزا محمدافضل بیگ نے رائے شماری کے نام پر اپنی سیاست کے نریٹو کو ۱۹۷۵ء میں اپنی ۲۳سالہ آوارہ گردی کا عنوان عطاکرکے عملاً قوم سے اپنی سیاسی حماقتوں کیلئے معافی مانگ لی اور واپس عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن اسی ۲۳؍ سالہ مدت کے دوران بخشی مرحوم سے لے کر سید میر قاسم تک کے وزراء اعظموں ؍ وزرا اعلیٰ جو محض دہلی کی کٹ پتلیوں کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے کا آج کی تاریخ میں کوئی نام لیوا نہیںہے۔
پھر غور وفکر کا مقام یہ بھی ہے کہ بلکہ محض دو مہینوں کی قلیل ترین مدت میں الیکٹورل پراسیس او رنتائج کے حوالہ سے جو منظرنامہ اُبھر کرسامنے آیا ہے وہ اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ بلکہ پیغام ہے کہ اسی روایتی اور خاندانی پارٹی کو کشمیر کے تین پارلیمانی حلقوں سے وابستہ ۳۴؍ اسمبلی حلقوں اور جموں کے راجوری پونچھ حلقے کے ۷؍ اسمبلی حلقوں سے لوگوں کا اعتماد اور منڈیٹ حاصل ہواہے۔
یہ سارے معاملات ، نکات اور تجزیہ اس بات کو اور بھی واشگاف طور سے یہ پیغام دے رہی ہے کہ عوام کسی بھی اعتبار سے نہ پرائیوں کو قبول کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ کٹ پتلیوں کو ۔ بلکہ ان کی ترجیح مقامیت پر ہے اور مقامیت سے مراد وہ جو بیساکھیوں کاسہارا لے کر اپنی سیاسی دکانیں چلانے اور سجانے کی درپردہ یا عیاں کوششوں سے خود کو دوررکھیں اور صرف اپنے لوگوں کی بات کریں۔
کشمیر کاسیاسی منظرنامہ فی الوقت طعنہ زنی ، کردارکشی ، بدکلامی اور ٹرمپ اور عمرانڈو طرز کی غلیظ سیاست کا متحمل نہیںہے اور نہ اس نوعیت کے کسی سیاسی کلچر کو گلے لگانے کا اب بدلتے حالات میں جوکھم اُٹھاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

کشمیر ایک تجربہ گاہ ہے

Next Post

تیسری مدت:بی جے پی اہم وزارتیں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے…لیکن؟

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
تیسری مدت:بی جے پی اہم وزارتیں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے….لیکن؟

تیسری مدت:بی جے پی اہم وزارتیں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے…لیکن؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.