پیر, مئی 12, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

عمر اور محبوبہ کی شکست

لیکن بی جے پی کے حمایتی بھی ناکام رہے

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-06-05
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

نتائج سامنے ہیں ۔ جموںوکشمیر کے پانچ پارلیمانی حلقوں سے جو نتائج سامنے آئے ہیں کچھ حلقے ان نتائج کو غیر متوقع ، کچھ حیران کن اور کچھ ناقابل یقین قرار دے رہے ہیں۔ لیکن کسی کے کہنے ، سمجھنے یا کوئی اور تاثر دینے سے کچھ نہیںہوتا، نہ شکست سے دوچار ہونے والے اور نہ ہی جیت کی دہلیز کامیابی کے ساتھ عبور کرنے والوں کو نتائج سامنے آنے کے بعد ان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
قطع نظر اس بات کے کہ جموںوکشمیر کے دو سابق وزرا اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ کو شکست ہوئی اور انہوںنے اپنی شکست تسلیم بھی کرلی ہے لیکن ان دونوں کی شکست کے حوالہ سے چند ایک سوالات ہیں جنہیںنظر اندازنہیں کیاجاسکتا ہے ۔ بے شک اننت ناگ کے حوالہ سے محبوبہ مفتی کو کسی حد تک سبقت حاصل تھی لیکن راجوری… پونچھ نے اس کی اس سبقت کو گہری وفاداریوں اور فرقہ واریت کے عنصر نے ڈھیر کرکے رکھدیا ۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ کیا الیکشن ذات پات، علاقائیت، فرقہ واریت اور مذہبی عقیدوں کی بُنیاد پر لڑناجائز ہے، اخلاقی اعتبار سے درست ہے ؟ اس کا جواب سادہ سے لفظوں میں یہی ہے کہ جی ہاں درست ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے الیکشن منظرنامہ پر بحیثیت مجموعی محض سرسری نگاہ ڈالی جاتی ہے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان الیکشنوں میںزائد از ۹۰؍ فیصد اُمیدواروں کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ ان کا تعلق طبقاتی ہوتاہے، وہ ذات پات فرقوں، جرگوں، دلتوں، برہمنوں، آدی واسیوں ،جاٹھوں، بڑے بڑے جاگیرداروں ، خانقاہوں اور آستانہ عالیہ کے سجادہ نشینوں اور نہ جانے کن کِن وفاداریوں اور وابستگیوں کے بندھن سے بندھے ہوتے ہیں۔ اننت ناگ …راجوری پارلیمانی حلقے سے نیشنل کانفرنس کے اُمیدوار میاں الطاف کی جیت اس مجموعی تناظرمیں ناقابل یقین یا حیران کن نہیں ہے بلکہ عین توقعات کے مطابق ہے۔
البتہ جہاں تک عمرعبداللہ کی شکست کا سوال ہے وہ حیران کن ضرور ہے ۔ بے شک ان کا تعلق اس مخصوص حلقے سے نہیں رہا ہے لیکن یہ وہ حلقہ ہے جو پارٹی سطح پر پارٹی کا ایک مضبوط گڑھ ماضی میں تصور کیاجاتارہاہے۔ سابق ممبر اسمبلی انجینئر رشید جو گذشتہ لگ بھگ چار سال سے تہاڑ جیل میں مقید ہیں، کی حلقے سے کامیابی کو خود بعض سیاسی حلقوں میںباعث حیرانی تصور کیاجارہاہے۔ کیوں حیرانی کا موجب قراردیاجارہا ہے اس کیلئے کئی ایک دلیلیں پیش کی جارہی ہیں یا ان دلیلوں کاسہارا لیاجارہا ہے۔
بہرحال محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ کی شکستوں کے اسباب اور آنے والے اسمبلی الیکشن کے حوالہ سے سیاسی اور الیکشن منظرنامہ پر مرتب ہورہے ممکنہ منفی یا مثبت اثرات اب توجہ اور بحث کا محور اور مرکز رہیں گے لیکن اس بات پر اتفاق پایا جارہا ہے کہ عمر کی شکست کے باوجود نیشنل کانفرنس کو کسی بھی حوالہ سے عوامی سطح پر جو مقبولیت حاصل ہے وہ اثرانداز نہیںہوگی بلکہ آنے والے وقتوں میںعوامی سطح پر کسی نئے آکار کے ساتھ ردعمل ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اننت ناگ …راجوری پارلیمانی حلقے میں حکمران جماعت بی جے پی نے اپنے کسی اُمیدار کو میدان میں نہیں اُتارا تھا، لیکن اس حلقے سے اپنی پارٹی کے اُمیدوار ظفر اقبال منہاس کی نہ صرف حمایت کی بلکہ پارٹی کے کئی لیڈروں نے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہاں تک کہ جمو ں کا ایک سیاسی حلقہ مسلسل دعویٰ کرتا رہا کہ بی جے پی کا ایک لاکھ کے قریب ووٹ نوشہرہ اور کچھ دوسرے قریبی علاقوں میںموجود ہے جو منہاس کی کامیابی میںایک اہم عنصرہوگا۔ بی جے پی نے زبانی طور سے بارہمولہ حلقہ کیلئے سجاد غنی لون کی بھی حمایت کا عندیہ دیا جبکہ اپنی پارٹی نے بھی سجاد لون کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ان حمایتوں کے ہوتے یہ امکان ظاہر کیا جارہاتھا کہ سجاد غنی لون شاید عمرعبداللہ پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہوجائیںگے لیکن انجینئر رشید کو کئی لاکھ ووٹ حاصل ہوں گے یہ کسی کے بھی تصور میںنہ تھا۔ انجینئر رشید کی کامیابی کایہی پہلو حیران کن خیال کیاجارہاہے۔یہ بھی حیران کن ہے کہ اُن کے بیٹے نے جو الیکشن مہم چلائی اُس کا خرچہ صرف ۲۷؍ہزار روپیہ ظاہر کیاجو کہ اتنے بڑے پارلیمانی حلقے کیلئے تشہیری مہم اور دوسرے ناگزیر اخراجات کے تناظرمیں ناقابل یقین ہے۔
بی جے پی قیادت مسلسل اور بار بار یہ توقع ظاہر کرتی رہی کہ وہ جموں وکشمیرکے لداخ سمیت سبھی چھ حلقوں پر کامیابی حاصل کرے گی لیکن حمایتی اُمیدواروں کی الیکشن میںشکست کیا حکمران جماعت بی جے پی کی شکست تصور کی جائیگی، یہ سوال اب اسمبلی الیکشن کے عملی انعقاد تک عوامی اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہے گا۔ اب اس حوالہ سے یہ سوال بھی بی جے پی کی قیادت سے متوقع ہے کہ وہ اپنے جس عہد بند ووٹ بینک کا دعویٰ کرکے ان ووٹوں کی اپنے حمایتی اُمیدواروں کے حق میں منتقلی کا دعویٰ کررہے تھے وہ منتقل کیوں نہ ہوئے اور اگر ہوئے تو اس کا شرح تناسب کیا رہا؟ یہ صورتحال جموںوکشمیر بی جے پی قیادت کیلئے کچھ وقت تک پریشانی کا باعث بنارہیگی۔
بی جے پی کیلئے لداخ سے اپنے اُمیدوار کی شکست کئی اعتبار سے اور زیادہ پریشان کن اور فکر مندی کا موجب رہیگی۔ اگر چہ اُس حلقے سے آزاد اُمیدوار حاجی حنیفہ کامیاب ہوئے ہیں لیکن درحقیقت اُس کا تعلق نیشنل کانفرنس سے ہی ہے۔ اس طرح بحیثیت مجموعی نیشنل کانفرنس جموںوکشمیر لداخ سے چھ میںسے تین حلقوں میںکامیاب رہی ہے ۔جو سیاسی اعتبار سے دوسرے سیاسی حلقوں کیلئے زبردست چیلنج کا موجب بنی رہیگی۔
عمر عبداللہ نے اپنی ناکامی قبول کرتے ہوئے تاہم یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کامیابی کے باوجود کیا انجینئر رشید کو جیل سے رہائی حاصل ہوگی؟ انہوںنے شک کا اظہار کیا ہے۔ اگر چہ اس تعلق سے کچھ بھی قطعیت کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کامیابی کی صورت میں انہیں رہائی مل جائیگی یا بحیثیت پارلیمنٹ رکن کا حلف اُٹھانے کی اجازت دی جائیگی ا س پر توجہ ضرور مرتکز رہیگی لیکن انجینئر رشید کے لئے باہر آنے کی صورت میں کچھ چبھتے سوالوں کا سامنا ہوسکتا ہے ، کیا وہ ان چبھتے سوالوں کا جواب دے پائیں گے، کیا ان کے جوابات زمینی حقیقت کے قریب اور دلیل میں استدلال اور وزن ہوگا اُس پر بھی توجہ رہیگی۔
سارے سوالوں، اٹکلیوں اورقیاس آرائیوں سے قطع نظر نیشنل کانفرنس کی لیڈر شپ نے سپورٹس مین سپرٹ کے تحت انجینئر رشید کو نہ صرف جیت پر مبارکباد پیش کی ہے بلکہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں فوری طور سے رہا کردیاجائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو عوامی توقعات کے مطابق انجام دے سکیں۔لیکن اس کے برعکس اپنی پارٹی کے سربراہ نے محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ کی شکست پر جس انداز اور لہجہ میں خوشی کااظہارکیا ہے وہ سیاسی خباثت ، جس کو کچھ مخصوص فکر کے حامل سیاسی حلقے مصلحتاً کشمیر میں متعارف کرانے چاہتے ہیں کا ہی ایک تسلسل تصور کیاجارہاہے۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

شمالی کشمیر اچھا میز بان نہیں

Next Post

جنوبی افریقہ نے سنسنی خیز کم اسکور میچ میں سری لنکا کو چھ وکٹ سے شکست دی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
ایشیا کپ سے پہلے سری لنکن ٹیم کو فٹنس مسائل نے گھیر لیا، اعلان کردہ ٹیم کے دو کھلاڑی انجریز کی وجہ سے ٹیم سے باہر

جنوبی افریقہ نے سنسنی خیز کم اسکور میچ میں سری لنکا کو چھ وکٹ سے شکست دی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.