یہ الیکشن نہیں فکری دہشتگردی ہے
کشمیرکا الیکشنی منظرنامہ بھی کچھ مختلف نہیں!
الیکشن کی گہماگہمی میں ایک دوسرے کو میدان میں پچھاڑ نے، اس پر نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے سبقت حاصل کرنے اور عوام کی نگاہوں میں گرا کر زمین چاٹنے پر مجبور کرنے کی بات تو سمجھ میں آتی رہی ہے اور فی الوقت بھی اسے مستثنیٰ نہیں سمجھا جاسکتا ہے لیکن اب کی بار جو الیکشن ہورہا ہے، جس کا تیسرا مرحلہ کچھ گھنٹے قبل اپنے آخری اور منطقی انجام کوپہنچ گیا، قطع نظراس کے کہ اس مرحلہ کو بھی چنائو کمیشن نے اپنے طرزعمل سے اور ڈالے گئے ووٹوں کے شرح تناسب کے حوالہ سے گذرے۲۴؍ گھنٹوں کے دوران عدد تبدیل کرکے اپنی اعتباریت اور شفافیت کے آگے مزید کچھ نئے سوالات لگادیئے ہیں، ہیت ، طریقہ کار ،لہجہ ، انداز بیان، نریٹوز وغیرہ کے تعلق سے ذراہٹ کے محسوس بھی ہورہاہے اور الگ الگ سا نظرآرہاہے۔
ملکی سطح پر وزیراعظم کی قیادت میں بی جے پی کا نریٹو اور اشوز کی اختراعت تو دوسری طرف کانگریس کی قیادت میںانڈیا بلاک کی طرف سے وضاحتیں اور جوابی بیانات اور دونوں کے حامی پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیاکی سرگرم حصہ داری اور پارٹیوں کی طرف سے اُٹھائے جارہے معاملات کو بُنیاد بنا کر آگے بڑھانے کی سمت میں شدت پسندانہ رول اور اپروچ کا محض سرسری جائزہ لیاجاتا ہے تو یہی آواز لب پہ آکر سنائی دیتی ہے کہ یہ الیکشن نہیںبلکہ الیکشن کے نام پر سیاسی، تہذیبی، لسانی ، مذہبی ، عقیدتی ،نظریاتی دہشت گردی ہے ، جس دہشت گردی کو مختلف طریقوں سے رائے عامہ کے سامنے پیش کرکے نہ صرف ان کے ذہنوں کو منتشر اور گمراہ کرنے کی شعوری اور دانستہ کوششیں کی جارہی ہے بلکہ سنجیدہ فکر اور حساس حلقے اس خیال پر متفق ہورہے ہیں کہ یہ سیاسی دہشت گردی الیکشن کی آڑ میں اور الیکشن کے نام پر جاری رہی اور تقویت حاصل کرتی رہی تو ملکی اور قومی سطح پر رہی سہی رواداری، یگانگت، یکجہتی اور سماجی تانابانا بہت جلد زمین بوس ہوتا دکھائی دے گا، جس کے ساتھ ہی ملک سے آئین اور جمہوریت کا متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ ایڈریس کا بھی کوئی نام ونشان باقی نہیں رہے گا۔
یہ حلقے اس بات پر حیران وششدر ہیں کہ پارٹیوں اور بلاکوں کے چنائو منشوروں میںجو اشوز اور معاملات درج ہی نہیں ان معاملات اور اشوز کو چنائو منشوروں کے ساتھ منسوب کرکے فضا کو دانستہ طور سے مکدر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک طرح کی مہم جوئی ہے جس کی سیڑھیوں کا استعمال کرکے لوگوں کی ایسی منفی اور مخصوص سوچ اُبھارنے کیلئے ذہن سازی کی جارہی ہے۔ اس مذموم ذہن سازی کے پیچھے کون لوگ ہیں، ادارے ہیں، پارٹیاں ہیں، تاریں ہلانے والے ہیں وہ سارے کے سارے نہ صاف چھپتے ہیں اور نہ سامنے آتے ہیں۔ یہی قوم کی ذہنی، فکری اور معاشرتی تباہی کی بُنیاد کا موجب بنتا جارہاہے، یہ دوسری بات ہے کہ آبادی کے کچھ مخصوص طبقوں اور حلقوں کو ابھی یہ نظرنہیں آرہا ہے البتہ وہ اس چھپے پیغام کو محسوس تو کررہے ہیں لیکن اندھے بن کر خاموش ہیں۔
یہ مخصوص منظرنامہ ملکی سطح سے متعلق ہے کشمیرکا سیاسی میدان ملکی سطح کے میدانی منظرنامے سے مختلف نہیں۔ جہاں ایک طرف نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان راست مقابلہ ہورہا ہے وہیںان دونوں پارٹیوں کے نامزد اُمیدواروں کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے تین پارٹیوں… اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس، ڈی پی اے پی پر مشتمل اتحاد بھی میدان میں ہے ۔لیکن الیکشن کے نام پر یہ ساری پارٹیاں او رانکی لیڈر شپ ایک دوسرے پر جوگند اُچھال رہی ہیںاس نے الیکشن منظرنامے کو غلاظت ، بدبو، عفونیت اور کوڈا کرکٹ کے ڈھیروں میں بدل کے رکھدیا ہے۔
ایک دوسرے کے بارے میںجو دعویٰ کئے جارہے ہیں اور جس لہجہ اور زبان کو استعمال کیاجارہاہے وہ اُس لہجہ اور زبان سے ہرگز مختلف نہیں جو ملکی سطح پر فی الوقت روا ہے۔ الزامات اور دعوئوں کی شدت اور سنگینی کا عالم یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس الیکشن منظرنامے سے بدظن اور متنفر ہوتی جارہی ہے، شکوک اور شبہات ، خدشات اور سوالات کے ہمالیہ کھڑے ہوتے جارہے ہیں ۔ اگر چہ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد چنائوی جلسوں میں موجود نظرآرہی ہے لیکن وہ حلقے جو جلسوں سے باہر ہے وہ بے چینی محسوس کررہے ہیں۔
کانگریس کی قیادت میں انڈیا بلاک کے ساتھ الگ الگ سے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی اعلانیہ وابستگی ڈھکی چھپی نہیں لیکن اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس اور ڈی پی اے پی کے درمیان آپس میں غیر اعلانیہ کولیشن موجود ہے اس کا انہیں اعتراف تو ہے لیکن ملکی سطح کی بی جے پی کے ساتھ مفاہمت اور اشتراک کا اعتراف یا اعلان نہیںکیاجارہاہے جبکہ بی جے پی اپنا کوئی اُمیدوار میدان میں جھونکے بغیر وادی کے تینوں حلقوں میں الیکشن مہم چلارہی ہے ، لوگوں سے کہاجارہاہے کہ وہ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس کو ووٹ نہ دیں، برعکس اس کے اعلان پہ اعلان کیاجارہاہے کہ ’’ہم (بی جے پی) ہم خیال اُمیدواروں کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔
بات صاف اور واضح ہے، تین پارٹیاں این سی، پی ڈی پی اور کانگریس دُشمن صف میں ہیں جبکہ باقی تین پیپلز کانفرنس ، اپنی پارٹی اور ڈی پی اے پی کو ہم خیال قراردیاجارہا ہے۔ ان پارٹیوں کے اس مخصوص طرزعمل کو نیشنل کانفرنس مسلسل نشانہ بنارہی ہے اور اب تو عمر عبداللہ، جو بارہمولہ حلقے سے الیکشن لڑرہے ہیں،نے سجاد غنی لون پر یہ سنسنی خیز الزام بھی عائد کردیا ہے کہ اُس کی ایما پر لنگیٹ سے سابق رکن اسمبلی انجینئر رشید کو تہاڑ جیل میں مقید رکھا جارہاہے۔
بحیثیت مجموعی غور کیاجائے تو کشمیر کا الیکشنی منظرنامہ الیکشن کا نہیں دشنام طرازی، ہرزہ گوئی، زیر افشانی،کردارکشی ،سیاسی خباثت، انداز بیان ، طرزبیان اور لہجہ کے تعلق سے دہشت گردی اور سب سے بڑھ کر حقیر سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے مفاد پرستوں کی جنگ زرگری کا ہی آئینہ دار ہے۔