نئی دہلی،//سپریم کورٹ نے کسی امیدوار کو ووٹ سے زیادہ ‘‘نوٹا’ ’ ووٹ ملنے پر متعلقہ الیکشن کو کالعدم قرار دیکر اسے منسوخ کرنے کی ہدایت دیئے جانے کے مطالبے والی ایک درخواست پر غور کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں جمعہ کو الیکشن کمیشن کو جاری کیا ہے
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے سماجی کارکن اور مصنف شیو کھیڑا کی عرضی پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا۔
بنچ نے کہا [؟]ہم نوٹس جاری کریں گے ۔ اس کا تعلق انتخابی عمل سے بھی ہے ۔ دیکھتے ہیں الیکشن کمیشن اس معاملے پر کیا کہتا ہے ۔
اس پر درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ گوپال شنکرانارائنن نے کہا کہ متعلقہ ریاستی الیکشن کمیشن ( ایس ای سی ) نے اعلان کیا ہے کہ اگر نوٹا کسی بھی الیکشن میں فاتح بن کر ابھرتا ہے تو دوبارہ پولنگ لازمی ہوگی۔
وکیل نے کہا کہ چونکہ گجرات کے سورت پارلیمانی حلقے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدوار کے علاوہ کوئی دوسرا امیدوار نہیں تھا، اس لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ تمام ووٹر ایک ہی امیدوار کے حق میں ہیں۔ حال ہی میں سورت میں بی جے پی کے امیدوار کو بلامقابلہ منتخب قرار دیا گیا تھا۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ ‘‘الیکشن کمیشن نوٹا کو ایک جائز امیدوار کے طور پر غور کرنے میں ناکام رہا ہے ، جو کہ ایک جمہوری طرز حکمرانی میں ضروری ہے ۔’’ "اس کی وجہ یہ ہے کہ نوٹا صرف ایک شہری کا ‘ووٹ’ نہیں ہے ، بلکہ دراصل ایک درست انتخاب ہے ۔”
سپریم کورٹ نے ‘ پی یو سی ایل بمقابلہ یونین آف انڈیا’ (2013) کے معاملے میں اپنے تاریخی فیصلے میں تمام ای وی ایم میں نوٹا (اوپر میں سے کوئی نہیں) آپشن متعارف کرانے کی ہدایت دی تھی۔
عرضی میں کہا گیا ہے ”اس عدالت نے انتخابی نظام میں نوٹا کو اپنانے میں ایک مثالی انداز اپنایا تھا۔ ریاستی الیکشن کمیشن نے آئین میں اپنے اختیارات کا استعمال کرکے اس مثالی خیال کو حقیقت میں بدل دیا ہے ۔ چار ریاستوں میں پنچایت اور میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے ساتھ جو آغاز کیا گیا ہے اسے ہر سطح پر یکساں طور پر نافذ کیا جانا چاہئے ۔
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ 2013 سے نوٹا کے نفاذ سے وہ مقصد پورا نہیں ہوا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ اس سے ووٹروں کی شرکت میں اضافہ نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں کو اچھے امیدوار کھڑے کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ منفی ووٹوں کی عکاسی نہیں ہوتی۔ انتخابی نتائج اور نوٹا کے ذریعے ظاہر کیے گئے خیالات عوام کی اکثریت کی مرضی/رائے کا احترام نہیں کرتے ۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں ( ای وی ایم ) میں نوٹا کا اختیار ہمارے انتخابی نظام میں ووٹر کو حاصل ہونے والے ‘انکار کے حق’ کا نتیجہ ہے ۔ ہندوستان سے پہلے 13 دیگر ممالک نے منفی ووٹنگ یا پرہیز کا حق اپنایا۔ اس فہرست میں فرانس، فن لینڈ، بیلجیم، برازیل، بنگلہ دیش، چلی، یونان، سویڈن، یوکرین، امریکہ، کولمبیا اور اسپین جیسے ممالک شامل ہیں۔
سپریم کورٹ اس معاملے کی اگلی سماعت 7 مئی کو کرے گا۔