جب نامسائد حالات کے سبب ملکی اور غیر ملکی سیاح وارد ِ کشمیر نہیں ہوپارہے تھے تو کشمیر کی سیاحت سے بلواسطہ اور بلاواسطہ افراد اور ادارے اپنی بے بسی، روزی روٹی کے حصول کے حوالہ سے محتاجی، مالیاتی اداروں سے حاصل قرضوں کی عدم ادائیگی اور دوسری پریشانیوں کا رونا رو رو کر مرثیہ خواں نظرآتے تھے لیکن اب جبکہ پہلے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور ایل جی ایڈمنسٹریشن کی انتھک کاوشوں اور مرکزی سرکاری کے اداروں کے اشراک عمل اور معاونتی کردار کے طفیل کشمیر کی سیاحت کو ایک بار پھر نئی زندگی مل گئی تو یہی وائویلا اور سینہ کوبی کرنے والوں کا دماغ ساتویں آسمان پر چڑھتا نظرآرہا ہے اور سیاحوں سے مختلف سروسز کے نام پر جتنا ممکن ہوپارہا ہے رقومات وصول کئے جارہے ہیں۔
کشمیر کی سیاحت پر آئے کچھ سیاحوں نے اس طر زعمل کو محسوس کرتے ہوئے اپنا ردعمل یہ کہکر ظاہر کیا کہ یہ ’’کشمیرنہیں بلکہ CASHمیر ہے‘‘۔ کشمیرکی سیاحت سے وابستہ جتنے بھی ادارے ہیں اور ان اداروں کی جو لوگ بھی سرپرستی اور قیادت کررہے ہیں سیاحو ں کا یہ ردعمل ان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ سے کہیں زیادہ سیاحوں کے حوالہ سے حسن سلوک کے ضمن میں کشمیرکی ایسی کردار کشی ہے جس کی نظیرنہیں ملتی۔ بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ ردعمل ایک چتاونی کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
ڈل جھیل سے وابستہ شکارا والوں کا یہ لٹیرانہ طرزعمل ناقابل معاف جرم ہے۔ ان کایہ طرزعمل کشمیرکی سیاحت کی صنعت کیلئے خد انہ کرے سم قاتل بھی ثابت ہوسکتاہے۔ اس طرح کے لٹیرانہ طرزعمل کے حوالہ سے ان شکارا والوں اور ان دوسرے اداروں چاہئے وہ ہوٹل مالکان ہیں، ریستوران والے ہیں، ٹرانسپورٹر ز ہیں، ٹور آپریٹرز ہیں یا اور کوئی وابستہ کو یہی مخلصانہ مشورہ دیاجاسکتاہے کہ وہ اپنے اس لٹیرانہ انداز فکر اور طرزعمل سے اجتناب کریں اور کشمیر اور کشمیر کی سیاحت کے ماتھے کو ان داغ دھبوں سے سیاہ نہ کریں۔
ٹورازم سے وابستہ اداروں کے منتظمین بھی اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ ان کے پاس بھی لٹیرانہ طرزعمل کی شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔ ان شکایتوں پر فی الوقت تک کیا کارروائی کی گئی اس بارے میںفی الوقت تک تو کوئی معتبر اور مصدقہ جانکاری نہیں البتہ عدم کارروائی اس سارے سسٹم کو تہہ وبالا کرنے کا بھی موجب بن سکتی ہے۔ وقت ہاتھ میں ہے بہتر اور افضل یہی ہے کہ لٹیرانہ طرزعمل میں ملوث افرا د اور اداروں کی لائسنس سزا کے طور منسوخ کردیئے جائیں اور انہیں ٹورسٹ ٹریڈ سے وابستہ کسی بھی نوعیت کی سرگرمیوں کا مستقبل کے حوالہ سے حصہ نہ بننے دیاجائے۔تاکہ دوسرے بھی عبرت حاصل کریں۔
آج کی تاریخ میں جتنے بھی لوگ اور ادارے ٹورم ازم سے وابستہ ہیں انہیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کشمیر کی سیاحت کا نام اُن کے دم سے نہیں بلکہ ماضی میں صدیوں سے اس صنعت سے وابستہ افراد کے سیاحوں کے ساتھ حسن سلوک، بہتر خدمات اور رواداری کی ہی طفیل ہے جس حسن سلوک اور بہتر خدمات کا برملا اعتراف ان کتب میں موجود ہے جو کشمیر آنے والے سیاحوں نے واپسی پر تحریر کیں اور اپنی ان تحریروں کو آج کے وارثوں کیلئے چھوڑ دیںتاکہ وہ کشمیرکی سیاحت کی تعمیر وترقی اور آنے والے سیاحوں کے ساتھ حسن سلوک کے حوالہ سے اپنی ان تحریروں کو بطور گائیڈ استعمال کیاکریں۔ لیکن یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ماضی کے اپنے اسلاف کے سیاحوں کے ساتھ حسن سلوک سے کوئی درس حاصل کرنے کی بجائے آج کی تاریخ میں ٹورازم ٹریڈ سے وابستہ بعض افراد اور ادارے لٹیرانہ طرزعمل کا راستہ اختیار کرکے بغیر کسی عرق ریزی کے ۲۴؍ گھنٹوں میں دولت مند بننا چاہتے ہیں۔
ٹورسٹ ٹریڈ ایکٹ اور دوسرے مروجہ قوانین کے تحت ایسے بددیانت اور مشکوک انداز فکر وعمل کی ذہنیت کے حامل افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کی گنجائش ہے جبکہ سیاحت کے وسیع تر مفادات اور بقاء کے حوالہ سے ایسے لوگ اور ادارے کسی رئو رعایت یا نرمی کے ہرگز مستحق نہیں ہے۔ نرمی اور رورعایت سے کام لیاگیا تو ایسے عنصر کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے ، کشمیرکی سیاحت کی صنعت، جس کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے آنے والے کچھ ہی برسوں میں تباہی وبربادی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔
ان لوگوں کو اس بات کا بھی احساس کرنا چاہئے کہ فی الوقت ہر ماہ اگر اوسطاً دو لاکھ سیاح واردِ کشمیر ہورہے ہیں تو یہ سیاح کشمیر کی اقتصادیات میں کس حد تک اور کس حجم کے ساتھ اپنا حصہ ادا کررہے ہیں۔ کتنے لوگ اور ادارے روزگار حاصل کررہے ہیں۔ سیاحوں کی یہ دو لاکھ ماہانہ اوسط آمد اطمینان بخش ہے لیکن اس اقتصادی راحت اور اطمینان کو لیٹرانہ اور احمقانہ عمل میں تبدیل کرنے کی کھلی چھوٹ کو کشمیر دُشمنی ہی قراردیاجاسکتاہے ۔
کشمیر کی سیاحت کے حوالہ سے دوسرا پہلو ہے جس کا تعلق شری امرناتھ یاترا سے ہے۔ جو لوگ یاتر اکے حوالہ سے وارد ِکشمیر ہورہے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی حوالہ سے کشمیرکی اقتصادیات میں اپنا حصہ اداکررہے ہیں ۔ یاتریوں کی اچھی خاصی تعداد یاترا کے بعد سیاحتی مقامات کی طرف بھی متوجہ ہوجاتے ہیں۔لہٰذا امرناتھ یاترا کو اس مخصوص عینک سے بھی دیکھنا ناگزیر بن جاتاہے۔ یہ یاتری بھی ہمارے حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک انہیں کشمیر کے سفیروں کو روپ عطاکرنے کا متحرک ثابت ہوسکتاہے۔ اس تعلق سے مہمان نوازی میزبان کی اولین ترجیح بن جاتی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔ اگر مگر کی ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں!
ٹورازم محکمہ اور ٹورسٹ ٹریڈ سے وابستہ ادارہ شکارا والوں اور چند دوسرے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر ڈل جھیل اور نگین وغیرہ کی شکارا سیر کیلئے پوائنٹ ٹوپوائنٹ شرح کرایہ مقرر کرکے اس لٹیرانہ طرزعمل کا قلع قمع کرسکتے ہیں تاکہ CASH میر کا اختراعی دھبہ مٹا کراصل کشمیر کی عظمت رفتہ بحال کی جاسکے۔