نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ادویات کے ‘گمراہ کن’ اشتہارات کے معاملے میں پتنجلی آیوروید کے ساتھ ساتھ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے ) پر بھی سوال اٹھائے ہیں اور اسے اپنے اندر جھانکنے کا مشورہ دیا ہے ۔
جسٹس ہما کوہلی اور جسٹس احسان الدین امان اللہ کی بنچ نے یوگا گرو بابا رام دیو اور پتنجلی آیوروید کے منیجنگ ڈائریکٹر آچاریہ بال کرشن سے توہین عدالت کے کیس میں گمراہ کن اشتہارات سے متعلق اشتہار کے سائز سے جوڑتے ہوئے سوال کیا ۔
بنچ نے پتنجلی کے خلاف کیس میں عرضی گزار آئی ایم اے کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ خود کا جائزہ لے اور اس کی "اپنے اراکین کو انتہائی مہنگی اور غیر ملکی ادویات تجویز کرنے کی غیر اخلاقی سرگرمیوں” پر غور کرے ۔
عدالت عظمیٰ نے بڑی تعداد میں فاسٹ موونگ کنزیومر گڈز (ایف ایم سی جی) کمپنیوں کو جانچ کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کیا، جو گمراہ کن اشتہارات کے ذریعے مبینہ طور پر صارفین بشمول شیر خوار بچوں اور بزرگ شہریوں کو مبینہ طور پر دھوکہ دے رہی ہیں ۔
ایف ایم سی جی کمپنیوں کی طرف سے جاری کئے گئے اشتہارات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے کئی سوالات بھی کئے ۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ایک حلف نامہ داخل کرے جس میں وزارت اطلاعات و نشریات اور صارفین کے امور کی وزارت نے ( ایف ایم سی جی کمپنیوں کے گمراہ کن اشتہارات کے لیے ) 2018 سے جو اقدامات کئے ہیں ان کی وضاحت کرے ۔
بنچ نے کہا "ہم واضح کرنا چاہتے ہیں… ہم یہاں کسی خاص (پارٹی) کی حمایت کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایجنسیاں کیسے کام کر رہی ہیں… ہمیں لگتا ہے کہ یہ قانون کے اندر ہے ۔ یہ عمل ” گورننس کا حصہ ہے ۔”
بنچ کے سامنے توہین عدالت کے مرتکب فریقوں (بابا رام دیو اور دیگر) کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی، بلبیر سنگھ اور دیگر وکلاء نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے میں غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے ملک بھر کے 67 اخبارات میں اشتہار جاری کیا ہے ۔
اس پر بنچ نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ معافی (اشتہار) ‘‘گمراہ کن اشتہارات’’ کے مترادف ہے ؟ اس کے بعد انہیں اشتہار سے متعلق اصل اخبار داخل کرنے کی اجازت دی گئی۔
عدالت عظمیٰ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج (مرکزی حکومت کی طرف سے ) سے یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے 29 اگست 2023 کو تمام ریاستوں کی لائسنسنگ اتھارٹی کو خط کیوں جاری کیا؟
بنچ نے حکومت کے وکیل سے پوچھا کہ کیا یہ من مانی اور دکھاوے کی کوشش نہیں ہے ؟
بنچ نے آئی ایم اے کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ پی ایس پٹوالیا سے پوچھا "آپ اپنے اراکین کے ساتھ کیا کر رہے ہیں (جو دوائیں لکھ رہے ہیں؟ ہم آپ سے سوال کیوں نہ کریں؟ آپ اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے "۔
بنچ نے مناسب مدد کے لئے مسٹر پٹوالیا کی درخواست پر نیشنل میڈیکل کمیشن کو بھی کارروائی میں فریق بنایا۔
جیسے ہی سماعت شروع ہوئی، سپریم کورٹ نے یہ جاننا چاہا کہ کون مداخلت کرنے والا تھا جس نے آئی ایم اے پر 1,000 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا، بنچ نے کہا "ہم بہت فکرمند ہیں،”
سپریم کورٹ اس معاملے میں اگلی سماعت 7 مئی کو کرے گی۔